Category: Taliban

جنوبی افغانستان میں ھزارہ افراد بشمول خواتین کا اغواہ اور قتل

November 21, 201521Nov15_VOA ہزارہ01VOA

تقریباً چھ ماہ قبل غزنی سے اغوا کیے گئے سات شیعہ ہزارہ افراد جن میں خواتین بھی شامل تھیں، کی لاشیں رواں ماہ زابل سے برآمد ہوئی تھیں اور اس کے خلاف بڑے مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے۔افغانستان کے جنوبی صوبہ زابل میں نامعلوم مسلح افراد نے شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد کو اغوا کر لیا ہے اور یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب رواں ماہ ہی زابل سے سات مغوی ہزارہ افراد کی لاشیں برآمد ہونے پر اس کے خلاف ملکی تاریخ کے بڑے احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آچکے ہیں۔حکام کے مطابق ہفتہ کو علی الصبح مسلح افراد نے کابل اور قندھار کے درمیان مرکزی شاہراہ مسافر بسوں کو روکا اور شناخت کے بعد ان میں سے ہزارہ برادری کے لوگوں کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔مغویوں کی اصل تعداد کے بارے میں متضاد بیانات سامنے آئے ہیں لیکن حکام کے بقول ان کی تعداد 14 سے 20 تک ہے۔
21Nov15_VOA ہزارہ02
تاحال اغوا کاروں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی کسی نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے لیکن جنوبی افغانستان میں طالبان اور داعش سے وابستہ شدت پسند شیعہ لوگوں کے اغوا میں ملوث رہے ہیں۔فارسی زبان بولنے والے اس شیعہ ہزارہ برادری کو طویل عرصے سے افغانستان میں ناروا سلوک اور ایذا رسانیوں کا سامنا رہا ہے جب کہ طالبان کے دور اقتدار میں اس برادری کے ہزاروں افراد کا قتل عام بھی ہو چکا ہے۔تقریباً چھ ماہ قبل غزنی سے اغوا کیے گئے سات شیعہ ہزارہ افراد جن میں خواتین بھی شامل تھیں، کی لاشیں رواں ماہ زابل سے برآمد ہوئی تھیں۔ہزاروں افراد نے اغوا اور قتل کے اس واقعے کے خلاف کابل سمیت ملک کے مختلف حصوں میں مظاہرے کیے اور حکومت سے ان لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا

پاکستان میں داعش کی موجودگی کے امکانات رد

November 15, 2015DI_00DU

اسلام آباد: پاکستان نے خود ساختہ دولت اسلامیہ (داعش) کی ملک میں موجودگی کے امکانات مسترد کر دیے۔
سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے اتوار کو ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان میں کسی کو داعش کے ساتھ روابط قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
DI_01چوہدری نے کہا کہ پاکستان داعش سمیت کسی بھی انتہا پسند تنظیم سے لاحق تمام خطرات سے نمنٹے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ ’پاکستان اپنی عوام کی مکمل حمایت کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت رہا ہے‘۔
DI_02دوسری جانب، سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی اور شدت پسندی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور وہ پیر س سانحہ پر فرانس کی حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔
DI_04دفتر خارجہ کے زیر اہتمام ایک تقریب سے خطاب میں صادق نے کہا کہ ایک دہائی سے زائد خود دہشت گردی کا نشانہ رہنے والا پاکستان دکھ اور تکلیف کی گھڑی میں فرانسیسی عوام کے ساتھ ہے۔جدید انسانی تہذیب کیلئےدہشت گردی کو ایک مشترکہ چیلنج قرار دیتے ہوئے صادق نے کہا کہ اس طرح کے حملے کوئی مذہبی یا اخلاقی جواز نہیں رکھتے۔
DI_05سپیکر قومی اسمبلی نے دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے مشترکہ عالمی کوششوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے غیر معمولی سٹریٹیجک اقدامات کے ذریعے جرات مندی سے اس لعنت کا مقابلہ کیا۔صادق نے بتایا کہ پاکستان اس لڑائی میں عالمی برادری کی مدد کیلئے تیار ہے۔
DI_03

افغانستان: آشنا کے ساتھ فرار ہونے والی دوشیزہ سنگسار

November 03, 201504Nov15_AA سنگسار01BBC

افغانستان میں اپنے آشنا کے ساتھ فرار ہونے والی ایک نوجوان عورت کو انتہا پسندوں نے سرعام سنگسار کردیا ہے۔
اس لڑکی کا نام رخسانہ بتایا گیا ہے اور اس کی عمرانیس اور اکیس کے درمیان تھی۔اس کے خاندان نے اس کی شادی اس کی مرضی کے بغیر کسی اور مرد کے ساتھ کردی تھی۔منگل کو سامنے آنے والی ایک گرافک ویڈیو میں اس کو سنگسار کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔جب مجمع اس کو پتھر مار رہا تھا تو وہ بآواز بلند کلمہ شہادت پڑھ رہی تھی،افغان میڈیا سے نشر ہونے والی تیس سیکنڈز کی ویڈیو میں اس کی آواز بتدریج بلند ہوتی چلی جاتی ہے۔افغان حکام نے اس ویڈیو کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ دوشیزہ کو سنگسار کرنے کا یہ واقعہ صوبہ غور کے دارالحکومت فیروز کوہ سے چالیس کلومیٹر دور واقع علاقے غلمین میں ایک ہفتہ قبل پیش آیا تھا۔

غور کی گورنر سیما جوئندہ نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ رخسانہ کو طالبان ،مقامی مذہبی علماء اور غیر ذمے دار جنگجو سرداروں نے پتھر مار مار کر موت سے ہم کنار کیا تھا۔

جوئندہ نے مقامی حکام کے حوالے سے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ رخسانہ کے خاندان نے اس کی شادی اس کی مرضی کے بغیر کی تھی اور وہ اپنے خاوند کو چھوڑ کر ایک ہم عمر لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔گورنر نے اس سنگساری کے اس واقعے کی مذمت کی ہے اور کابل حکومت پر اپنے زیر نگیں علاقے کو پاک کرنے کے لیے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ”ان کے علاقے میں اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے اور یقیناً یہ آخری نہیں ہوگا۔افغانستان بھر میں بالعموم اور غور میں بالخصوص خواتین گوناگوں مسائل کا شکار ہیں۔اب جس مرد کے ساتھ یہ لڑکی بھاگی تھی،اس کو تو سنگسار نہیں کیا گیا ہے”۔

صوبہ غور کے پولیس سربراہ مصطفیٰ محسنی نے فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”یہ واقعہ افغان طالبان کے کنٹرول والے علاقے میں ہوا ہے اور اس سال کسی عورت کو سنگسار کرنے کا یہ پہلا واقعہ ہے”۔

آرمی پبلک اسکول حملہ: ‘ملزم’ اٹلی سے گرفتار

October 29, 201529Oct15_DU اٹلی01DU

اسلام آباد: پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے میں ملوث کالعدم تنظیم کے ایک اہم مبینہ ملزم کو اٹلی سے گرفتار کرلیا گیا۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق کالعدم تنظیم کے ایک اہم مبینہ ملزم عثمان غنی کو اطالوی پولیس نے گرفتار کیا، جسے انٹرپول کے ذریعے پاکستانی حکام کے حوالے کردیا گیا.عثمان غنی کو رات تقریباً 3 بجے کے قریب نجی پرواز کے ذریعے اٹلی پولیس کے اسکواڈ میں اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ لایا گیا اور فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے حوالے کیا گیا۔ذرائع کے مطابق مبینہ ملزم عثمان غنی کا تعلق ڈسٹرکٹ مردان کی تحصیل صوابی سے ہے، جس کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ آرمی پبلک اسکول پر حملے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں دہشت گردی کی متعدد کارروائی میں بھی ملوث ہے۔ملزم کو مزید تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔ذرائع کے مطابق ملزم عثمان غنی کی گرفتاری پاکستان کے لیے بہت بڑی کامیابی تصور کی جارہی ہے، اس گرفتاری سے مزید انکشافات سامنے آنے کا امکان ہے، جبکہ ملزم کے ذریعے کالعدم تنظیم کے دیگر ملزمان تک بھی رسائی حاصل کی جائے گی۔یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملے کے نتیجے میں معصوم بچوں اور اساتذہ سمیت کم از کم 150 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔
29Oct15_DU اٹلی02حملے کے بعد پاک فوج کے میڈیا ونگ انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاسم سلیم باجوہ نے میڈیا بریفنگ کے دوران تمام دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔عاصم باجوہ نے بتایا تھا کہ دہشت گرد اسکول میں سیڑھی لگاکر داخل ہوئے اور مرکزی ہال میں پہنچ کر فائرنگ کردی جبکہ خارجی راستوں پر بھی بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا ہدف یرغمال بنانا نہیں بلکہ مارنا تھا۔آئی ایس پی آر ترجمان کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کہیں محفوظ نہیں رہے گی اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا۔

کوئٹہ میں مسافر بس میں دھماکہ، دس افراد ہلاک

October 19, 2015
19Oct15_BBC کوئٹہ01BBC

پاکستان کے صوبے بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں ہونے والے دھماکے میں کم سے کم دس افراد ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ 20 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔
کوئٹہ میں بی بی سی کے نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق پولیس حکام کا کہنا ہے کہ یہ دھماکہ شہر کی مصروف شاہراہ سریاب روڈ پر بس ٹرمینل کے قریب ہوا ہے۔ایس ایس پی پولیس عبدالوحید خٹک کےمطابق دھماکہ سڑک سے گزرنے والی ایک مسافر بس میں ہوا۔انھوں نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق دھماکہ خیر مواد بس کی چھت پر نصب تھا۔سکیورٹی حکام کے مطابق دھماکے کا نشانہ بننے والی بس میں تقریباً 35 سے 40 افراد سوار تھے۔دھماکے کے بعد جائے وقوعہ پر امدادی سرگرمیاں شروع کر دی گئیں اور سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کے لیے سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کیا جا رہا ہے۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ دھماکہ ٹائم ڈیوائس کی مدد سے کیا گیا ہے۔خیال رہے کہ یہ دھماکہ ایسے وقت ہوا ہے جب محرم الحرام کی مناسبت سے کوئٹہ سمیت صوبے بھر میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ پر اس سے پہلے بھی کئی بار دھماکے ہوئے ہیں لیکن حالیہ کچھ عرصے کوئٹہ امن و امان کی صورتحال پہلے سے بہتر ہوئی ہے۔

کوئٹہ میں دھماکا، 10 افراد ہلاک

October 19, 2015
19Oct15_DU کوئٹہ01DU

کوئٹہ: بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکے میں دو بچوں سمیت دس افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے۔
دھماکا منگل کی رات سریاب روڈ پر دکانی بابا چوک کے قریب ٹرمینل پر کھڑی ایک بس میں ہوا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق، کوئٹہ سے کراچی جانے والی بس میں 40 مسافر سوار تھے، ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔دھماکے کے بعد شہر کا حساس سمجھے جانے والے علاقے سریاب روڈ پر ٹریفک معطل ہو گیا جبکہ امدادی کارروائیں جاری ہیں۔ دھماکے کی شدت سے اطراف میں عمارتوں کی کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔

قندوز میں لڑائی تیز، نیٹو کے فوجی بھی مدد کے لیے آ گئے

September 30, 2015
30Sep15_BBC قندوز01BBC

افغانستان کے شمالی شہر قندوز کو طالبان کے قبضے سے چھڑوانے کی لڑائی دوسرے دن میں داخل ہوگئی ہے اور شہر کے متعدد علاقوں سے شدید جھڑپوں کی اطلاعات مل رہی ہیں۔
طالبان نے پیر کو قندوز کی جیل اور ہوائی اڈے کے کچھ حصے سمیت تقریباً نصف شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔ان کی اس کارروائی کو سنہ 2001 میں اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے سب سے بڑی کامیابی قرار دیا گیا ہے۔افغان سکیورٹی فورسز نے منگل کو شہر کا قبضہ دوبارہ حاصل کرنے کے لیے کارروائی شروع کی جس میں اسے امریکی فضائیہ کی مدد بھی حاصل ہے۔افغان حکام کے مطابق بدھ کو سرکاری فوج ایئرپورٹ کی جانب بڑھنے والے طالبان جنگجوؤں کے خلاف منظم جوابی کارروائی کر رہی ہے۔قندوز میں موجود افغان فوج کی مدد کے لیے نیٹو کی غیر ملکی افواج کے خصوصی دستے بھی اب شہر میں پہنچ گئے ہیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ اب تک 80 سے زائد شدت پسند لڑائی میں ہلاک ہو چکے ہیں تاہم آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔منگل کو امریکہ کی جانب سے دو فضائی حملوں کے باعث طالبان کی ہوائی اڈے پر قبضے کی کوشش ناکام رہی تھی۔افغان خفیہ ایجنسی کا کہنا ہے کہ فضائی حملوں میں طالبان کا صوبائی سربراہ اور ان کے نائب مارے گئے ہیں لیکن طالبان نے اس خبر کی تردید کی ہے۔نیٹو کے ترجمان کے مطابق امریکی طیارے افغان سکیورٹی فورسز کو مدد فراہم کر رہے ہیں اور قندوز شہر کے گرد و نواح میں طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ دوسری جانب امریکہ نے اعتراف کیا ہے کہ قندوز پر طالبان کا قبضہ افغان حکومت کے لیے بڑا دھچکہ ہے تاہم امریکہ کو پورا یقین ہے کہ افغان فوج شہر پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔افغان وزارت صحت نے بتایا ہے کہ قندوز کے ہسپتالوں میں 16 لاشیں لائی گئی ہیں جبکہ 200 افراد زخمی ہوئے ہیں۔امدادی ادارے میڈیسن سان فرنٹیئر کا کہنا ہے کہ قندوز شہر میں ان کے ہسپتال ایسے افراد سے بھرے ہوئے ہیں جنھیں گولیاں لگنے سے زخم آئے ہیں۔
30Sep15_BBC قندوز02
طالبان کے نئے سربراہ ملا اختر منصور نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’حکومت کو اپنی شکست تسلیم کر لینی چاہیے، اور قندوز کے شہریوں کو اپنی جان اور مال کے حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، وہ معمول کے مطابق ہی رہیں۔

پشاور میں پاکستانی فضائیہ کے کیمپ پر حملہ، 13 دہشت گرد ہلاک

September 17, 2015
al-Arabia

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق جمعے کی علی الصبح صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں پاکستانی فضائیہ کے کیمپ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق سکیورٹی فورسز کی جوابی کاررائی میں اب تک 13 حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا ہے جبکہ فائرنگ کے تبادلے کے دوران زخمی ہونے والے فوجی اہلکاروں کی تعداد دس ہو گئی ہے۔ ان کے مطابق کیمپ میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق پشاور کے علاقے بڈھ بیر میں قائم پاکستانی فضائیہ کے کیمپ میں سات سے دس حملہ آوروں نےگارڈ روم پر حملہ کیا اور سات سے دس حملہ آوروں نےسکیورٹی حصار توڑ کر کیمپ میں گھسنے کی کوشش کی۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ کوئیک ری ایکشن فورس نے وہاں پہنچ کر علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے جبکہ علاقے کی فضائی نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔
پاکستان فوج کے مطابق کوئیک ری ایکشن فورس کی مدد سے کیے جانے والے آپریشن کی سربراہی پشاور بریگیڈ کمانڈ کر رہے ہیں۔

جائے وقوعہ سے ہمارے نامہ نگار عزیزاللہ خان نے بتایا ہے کہ امدادی ادارے ریسکیو 1122 کے اہلکاروں نے اب تک 23 زخمیوں کو سی ایم ایچ اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کیا ہے۔پولیس، سکیورٹی فورسز اور ڈیفنس سکیورٹی گارڈز کی ایک بڑی تعداد وہاں موجود ہے جنھوں نے علاقے کو گھیرے میں لیا ہوا ہے اور سرچ آپریشن جاری ہے۔ کچھ دیر قبل تک فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں آرہی تھیں لیکن اس وقت مکمل طور پر خاموشی ہو گئی ہے۔عینی شاہدین کے مطابق صبح سویرے فائرنگ کی آوازیں سنی گئی تھیں لیکن اس علاقے میں فائرنگ معمول کی بات ہے اس لیے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ تاہم جب دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا تو وہاں کے رہائشیوں کو تشویش ہوئی۔سپرٹنڈنٹ پولیس شاکر بنگش نے بتایا ہے کہ پولیس نے فضائیہ کے کیمپ کے ارد گرد کے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ جبکہ فضائیہ کے کیمپ کے ارد گرد موجود رہائشی علاقے میں سرچ آپریشن بھی کیا جارہا ہے۔کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خراسانی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

دوسری جانب صوبہ خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر اطلاعات مشتاق غنی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس واقعہ کی مذمت کی اور بتایا کہ ابھی کیمپ کے اندر کارروائی جاری ہے اور بم ڈسپوزل سکواڈ بھی موجود ہے۔مشتاق غنی نے اس حملے کو دہشت گردوں کی جانب سے فوجی آپریشن ضرب عضب کا رد عمل قرار دیا ہے۔صوبائی وزیر اطلاعات کے مطابق اس حملے میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کے بارے میں جلد میڈیا کو آگاہ کیا جائےگا۔وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف نے کیمپ پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور دہشت گرد کو جڑ سے اکھاڑنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی پشاور پہنچ گئے ہیں جہاں وہ کور ہیڈکوارٹر کا دورہ کرنے کے علاوہ کیمپ میں جاری کلیئرنس ُآپریشن میں ہونے والے زخمیوں سے ملاقات کریں گے۔

واضح رہے کہ پشاور سے تقریباً چھ کلو میٹر دور انقلاب نامی سڑک پر پاکستان فضائیہ کا یہ کیمپ واقع ہے اور 80 کی دہائی میں اسے باقاعدہ طور پر کیمپ کا نام دیا گیا تھا۔قبائلی علاقوں سے متصل اس علاقے میں ماضی میں بھی پولیس سٹیشن، پولیس چوکیوں اور گرڈ سٹیشن پر متعدد حملے ہو چکے ہیں۔

Peshawar: Qaisar Abbas gunned down by terrorists of Banned Sipah e Sahaba

September 11, 2015
12Sep15_SN قیصر عباس

Terrorists of banned Sipah e Sahaba, also known as banned Ahl e Sunnat wal Jama’at, killed an active Shia person Qaisar Abbas by firing near Mirza Qasim Imam Bargah in Peshawar, the capital city of KPK.

According to eye witnesses, the terrorists fired upon Qaisar Abbas and ran away shouting slogans of ‘Shia Kafir’. It should be clear that Federal Interior Minister Chauhadry Nisar had said that people who raise slogans of ‘Kafir Kafir’ will not be tolerated in the country after which today’s incident is considered as a challenge of terrorists to the federal Interior Minister. Now it is to be seen that how Chauhadry Nisar will deal with these terrorists, will he answer them and take any practical action or will remain silent, as always.

D.I.Khan: Another Shia Police Constable killed in target killing

September 11, 2015
11Sep15_SN خضر عباس
Shiat News

The demon of terrorism and target killing has once again gone out of control. Head Constable Khizar Abbas was killed by un-identified people when they fired upon him at Musgara market, near Gari ban that comes under city police station. The martyred Khizar Abbas belonged to Daajil, Bhakar and used to perform his duty at the High court.

According to initial information, two terrorists came on motorcycle and targeted him from the back side. Police officials told that 9mm pistol was used in the incident which also injured a passerby Laal Jan who has been shifted to Civil Hospital. It should be clear that this is the third incident of terrorism and target killing in D.I. Khan within a week and police officials have been targeted in all the three incidents. Syed Zeeshan Haider (also known as Shani Shah), who was killed few days ago, was also a police constable and was also placed at the High court, like Shaheed Khizar Abbas. These recurrent incidents of target killing have caused citizens to feel concerned and threatened whereas the police has been put on high alert after the incident, as a routine task.