Category: Kidnapping

جنوبی افغانستان میں ھزارہ افراد بشمول خواتین کا اغواہ اور قتل

November 21, 201521Nov15_VOA ہزارہ01VOA

تقریباً چھ ماہ قبل غزنی سے اغوا کیے گئے سات شیعہ ہزارہ افراد جن میں خواتین بھی شامل تھیں، کی لاشیں رواں ماہ زابل سے برآمد ہوئی تھیں اور اس کے خلاف بڑے مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے۔افغانستان کے جنوبی صوبہ زابل میں نامعلوم مسلح افراد نے شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد کو اغوا کر لیا ہے اور یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب رواں ماہ ہی زابل سے سات مغوی ہزارہ افراد کی لاشیں برآمد ہونے پر اس کے خلاف ملکی تاریخ کے بڑے احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آچکے ہیں۔حکام کے مطابق ہفتہ کو علی الصبح مسلح افراد نے کابل اور قندھار کے درمیان مرکزی شاہراہ مسافر بسوں کو روکا اور شناخت کے بعد ان میں سے ہزارہ برادری کے لوگوں کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔مغویوں کی اصل تعداد کے بارے میں متضاد بیانات سامنے آئے ہیں لیکن حکام کے بقول ان کی تعداد 14 سے 20 تک ہے۔
21Nov15_VOA ہزارہ02
تاحال اغوا کاروں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی کسی نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے لیکن جنوبی افغانستان میں طالبان اور داعش سے وابستہ شدت پسند شیعہ لوگوں کے اغوا میں ملوث رہے ہیں۔فارسی زبان بولنے والے اس شیعہ ہزارہ برادری کو طویل عرصے سے افغانستان میں ناروا سلوک اور ایذا رسانیوں کا سامنا رہا ہے جب کہ طالبان کے دور اقتدار میں اس برادری کے ہزاروں افراد کا قتل عام بھی ہو چکا ہے۔تقریباً چھ ماہ قبل غزنی سے اغوا کیے گئے سات شیعہ ہزارہ افراد جن میں خواتین بھی شامل تھیں، کی لاشیں رواں ماہ زابل سے برآمد ہوئی تھیں۔ہزاروں افراد نے اغوا اور قتل کے اس واقعے کے خلاف کابل سمیت ملک کے مختلف حصوں میں مظاہرے کیے اور حکومت سے ان لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا

مبینہ ریپ کے ملزم سعودی سفارت کار بھارت چھوڑ گئے

September 17, 2015

BBC

بھارت کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ سعودی سفارت کار جن پر دو نیپالی خواتین کے مبینہ ریپ کا الزام ہے، سفارتی استثنیٰ کے تحت بھارت چھوڑ چکے ہیں۔

دونوں متاثرہ خواتین کی عمریں 30 اور 50 سال ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں اغوا کر کے ایک فلیٹ میں بھوکا رکھا گیا اور سفارت کار نے انھیں بار بار ریپ کیا تھا۔سعودی عرب نے تمام الزامات کی تردید کی ہے اور اپنے اہلکار کے سفارتی استثنیٰ کو منسوخ کرنے سے انکار کر دیا ہے جس کے نتیجے میں بھارت میں اس اہلکار پر مقدمہ درج نہیں کیا جا سکتا۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی سفارت کار کی بھارت سے روانگی نے بھارت کو ایک سفارتی مخمصے سے نکال لیا ہے۔

نیپال اور بھارت کے سفارتی تعلقات گہرے ہیں لیکن بھارت تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب کے ساتھ بھی تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا جہاں لاکھوں بھارتی شہری کام کرتے ہیں۔بدھ کی رات کو بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ نے ایک بیان میں کہا کہ فرسٹ سیکرٹری مجید حسن عاشور نے ’جن پر دو نیپالی خواتین کے ساتھ زیادتی کرنے کا الزام ہے، ملک چھوڑ دیا ہے‘۔انھوں نے مزید کہا کہ سرکاری سفارتی تعلقات پر مبنی ویانا کنوینشن کے تحتمذکورہ سفارتی اہلکار کو تحفظ حاصل ہے۔
.
بھارتی پولیس نے اس سے پہلے سعودی سفارت کار پر ریپ، اغلام بازی اور کسی شخص کو غیر قانونی طور پر قید کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کر لیا تھا۔دونوں خواتین کو بھارتی دارالحکومت دہلی سے ملحق شہر گڑگاؤں کے ایک فلیٹ سے بچایا گیا تھا جس کے بارے میں پولیس کو ایک غیر سرکاری تنظیم نے بتایا تھا۔

خواتین گھریلو کام کرتی تھیں اور ان پر مبینہ طور پر زیادتی کئی ماہ سے ہو رہی تھی۔خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ایک خاتون نے کہا کہ ’ہمیں لگتا تھا جیسے ہم یہاں پر مر جائیں گی۔‘ انھوں نے کہا کہ ان کے ساتھ روزانہ زیادتی ہوتی تھی۔

انھوں نے مزید کہا کہ فلیٹ کی عمارت بہت اونچی تھی اور وہ وہاں سے بالکل نہیں بھاگ سکتی تھیں۔دونوں خواتین کو گذشتہ ہفتے واپس نیپال بھیج دیا گیا تھا۔نیپال دنیا کے سب سے غریب ممالک میں سے ایک ہے اور ملک سے ہزاروں لوگ گھریلو ملازمت یا مزدوری کے لیے بھارت یا دیگر ایشیائی اور عرب ریاستوں کا سفر کرتے ہیں۔

داعش : چینی اور ناوریجیئن یرغمالی برائے فروخت

September 10, 2015
10Sep15_AA برائے فروخت01
al-Arabia

عراق اور شام کے ایک بڑے حصے پر قابض سخت گیر جنگجو گروپ داعش نے کہا ہے کہ اس نے ایک چینی اور نارویجیئِن شہری کو یرغمال بنا رکھا ہے۔اس نے ان دونوں کی رہائی کے لیے تاوان کا مطالبہ کیا ہے۔اوسلو میں ناروے کی وزیراعظم ایرنا سولبرگ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ داعش نے ایک نارویجیئن شہری کو یرغمال بنا رکھا ہے لیکن انھوں نے کہا ہے کہ ناروے اس کی رہائی کے لیے کوئی تاوان ادا نہیں کرے گا۔داعش نے اپنے انگریزی زبان میں شائع ہونے والے میگزین دابق میں ان دونوں یرغمالیوں کی تاوان کے بدلے میں رہائی کی پیش کش کی ہے۔ یہ میگزین ٹویٹر پر جاری کیا جاتا ہے۔البتہ اس نے یہ نہیں بتایا کہ ان دونوں کو کہاں سے اور کب پکڑا گیا تھا اور اب انھیں کہاں زیرحراست رکھا ہوا ہے۔

ان دونوں کے بارے میں داعش نے الگ الگ اشتہار شائع کیا ہے اور ان کی تصاویر کے ساتھ لکھا ہے کہ وہ برائے فروخت ہیں۔اس اشتہار میں داعش نے صلیبیوں ،کافروں اور ان کے اتحادیوں کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو مخاطب کر کے لکھا ہے کہ اس قیدی سے اس کی اپنی حکومت دستبردار ہوچکی ہے اور اس نے اس کو خرید کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔اس کے بعد تصویر کے آخر میں لکھا ہے:”جو کوئی بھی اس کی رہائی کے لیے تاوان ادا کرنا چاہتا ہے تو وہ درج ذیل ٹیلی گرام نمبر پر رابطہ کرسکتا ہے۔یاد رہے کہ یہ پیش کش محدود مدت کے لیے ہے”۔تاہم اشتہار میں داعش نے یہ نہیں بتایا ہے کہ چینی یا نارویجیئن شہری کی قیمتِ فروخت کیا ہے اور اس رقم کی ادائی کے لیے وقت کب ختم ہورہا ہے یا ہوگا۔اشتہار میں چینی یرغمالی کی شناخت فان جنگ ہوئی کے نام سے کی گئی ہے۔اس کی عمر پچاس سال ہے اور وہ کنسلٹینٹ ہے۔ادھر اوسلو میں وزیراعظم سولبرگ نے نیوز کانفرنس کے دوران نارویجیئن یرغمالی کا نام اولے جان گرمسگارڈ افستاد بتایا ہے۔اس کی عمر اڑتالیس سال ہے۔وہ ٹرنڈھیم میں ایک جامعہ کے ساتھ وابستہ تھا۔اس کو جنوری میں شام میں پہنچنے کے فوری بعد اغوا کر لیا گیا تھا۔انھوں نے ایک لگ بیان میں کہا کہ ”میں ناروے کے ایک شہری کے اغوا کی تصدیق کرسکتی ہوں۔اس کو شام میں قیدی کے طور پر رکھا جارہا ہے۔اس کیس کی پیروی کے لیے ایک کرائسیس سیل قائم کردیا گیا ہے”۔ ان کا کہنا تھا کہ ”یہ ایک سنجیدہ اور پیچیدہ معاملہ ہے ۔ہمارا مقصد اپنے شہری کو بحفاظت واپس ناروے لانا ہے”۔

کراچی میں خاتون استاد اغوا کے بعد قتل

September 03, 2015
03Sep15_DU قتلDU

کراچی : کراچی میں بدھ کو ایک خاتون استاد کو اغوا کے بعد قتل کرنے کے حوالے سے سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں۔

اس سے قبل ایس پی لانڈھی عفان امین نے بتایا تھا کہ اساس سے قبل ایس پی لانڈھی عفان امین نے بتایا تھا کہ اس خاتون استاد جس کی شناخت 26 سالہ قرة العین کے نام سے ہوئی، کی لاش کورنگی کے اللہ والا ٹاؤن کے سنسان علاقے میں دریافت ہوئی۔ایس پی لانڈھی نے بتایا کہ تفتیش کاروں نے ملزمان کی شناخت اور مقصد کے حوالے سے ” اہم شواہد” حاصل کیے ہیں جبکہ ایک شخص کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔

لاش کو جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں منتقل کردیا گیا ہے اور ہسپتال کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا ہے کہ موت کی وجہ کا تعین کیمیکل معائنے کے بعد ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ لاش پر خراشوں کے نشانات پائے گئے ہیں۔تاہم اب ایس پی گلشن عابد قائم خانی نے بتایا کہ مقتول کے ورثاء نے پی آئی بی پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کراتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کی بیٹی صبح ساڑھے سات بجے سے پی آئی بی کالونی کے ایک نجی اسکول سے غائب ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اسکول کے سی سی ٹی وی فوٹیج سے علم ہوا ہے کہ ایک لڑکی جس کی شناخت عالیہ کے نام سے ہوئی، صبح اپنی دوست رباب اور ایک شخص باقر کے ساتھ اسکول پہنچی۔ایس پی قائم خانی کے مطابق یہ تینوں قرة العین کو ڈیفنس میں سعودی قونصلیٹ کے پاس ایک ‘ریسٹ ہاؤس’ میں لے گئے۔اس علاقے کے سی سی ٹی وی فوٹیج سے پتا چلتا ہے کہ عالیہ، قرة العین اور ایک شخص گاڑی سے باہر آئے اور ریسٹ ہاؤس کے اندر چلے گئے جبکہ رباب اس گاڑی میں وہاں سے چلی گئی۔ بعد ازاں قرة العین کی لاش کورنگی سے دریافت ہوئی جس کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے۔

ایس پی گلشن نے بتایا کہ پولیس نے عالیہ اور ایک شخص حسن کو حراست میں لے لیا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ مقتولہ کا منگیتر ہے۔عابد قائم خانی کے مطابق ” ابتدائی تفتیش سے عندیہ ملتا ہے کہ عالیہ نے قرة العین کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ اس کے منگیتر حسن سے شادی کرسکے”۔تفتیش کاروں کا ماننا ہے کہ عالیہ نے قرة العین کی دوست رباب کی مدد لی تاکہ مقتولہ کو گروپ کے ساتھ جانے کے لیے تیار کرسکے۔

ایس پی قائم خانی کا کہنا تھا کہ عالیہ نے مقتولہ کو ” قرة العین اور حسن کے درمیان کچھ غلط فہیموں کو دور کرانے کے وعدے کا جھانسا دے کر لے گئی”۔ ان کے مطابق حسن نے خود کو ایک سماجی رضاکار کے طور پر متعارف کرایا مگر اس کی سرگرمیاں ” مشتبہ ” ہیں اسی لیے اسے پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔

پولیس عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایک اور تفتیشی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو تفتیش کرے گی کہ ڈیفنس کے ریسٹ ہاؤس میں کون کون موجود تھا اور کیا مقتولہ کو اسی مقام پر تشدد کا نشانہ بناکر قتل کیا گیا تھا یا نہیں۔

ملزمان کی شناخت چھپانے کے لیے ان کے نام تبدیل کردیے گئے ہیں

بغداد میں نقاب پوشوں نے 18 ترکوں کو اغوا کر لیا

2Sep15_AA اغوا
al-Arabia

عراق کے دارالحکومت بغداد میں نامعلوم نقاب پوشوں سے ترکی سے تعلق رکھنے والے اٹھارہ تعمیراتی ورکروں کو اغوا کر لیا ہے۔ترکی نے اپنے ان شہروں کے اغوا کی تصدیق کی ہے۔ترکی کے نائب وزیراعظم نعمان قرطلمس نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”بغداد میں ایک تعمیراتی کمپنی کے لیے کام کرنے والے اٹھارہ ترک شہریوں کو اغوا کیا گیا ہے۔ہم عراق کی وزارت داخلہ کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں اور امید ہے کہ یہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہوجائے گا”۔عراق کی وزارت داخلہ کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل سعد معان نے برطانوی خبررساں ادارے رائیٹرز کو بتایا ہے کہ ان ورکروں کو بغداد کے شمال مشرقی علاقے حبیبیہ سے بدھ کی صبح اغوا کیا گیا تھا۔انھوں نے یرغمال ترکوں کی تعداد سولہ بتائی ہے۔تاہم ایک پولیس کرنل نے ان کی تعداد سترہ بتائی ہے اور وزارتِ داخلہ کے ایک اور عہدے دار نے کہا ہے کہ اٹھارہ ترکوں کو اغوا کیا گیا ہے۔یادرہے کہ گذشتہ سال داعش نے شمالی شہر موصل میں چھیالیس ترک شہریوں کو اغوا کر لیا تھا لیکن انھیں تین ماہ کے بعد رہا کردیا تھا اور انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ترک حکومت نے تب ان کی رہائی کے لیے کسی قسم کی سودے بازی سے انکار کیا تھا۔

داعش نے یرغمال بنائی گئی آشورین خواتین کی تصاویر جاری کردی

16 August, 2015
16Aug15_AA آشورین01al-Arabia

شام اور عراق میں سرگرم دہشت گرد گروپ دولت اسلامیہ عراق وشام “داعش” نے رواں سال فروری میں شام کے شہر حسکہ سے یرغمال بنائی گئی آشورین نسل کی تین خواتین کی ان کے بچوں کے ہمراہ تصاویر جاری کی ہیں۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق برطانوی اخبارمیں شائع ہونے والی تصاویر میں ان خواتین نے اپنے ہاتھوں میں کاغذ پر لکھے اپنے نام اور داعش کے ہاں سے جاری کردہ کوڈ نمبر بھی دکھایا ہے۔

داعش کی جانب سے ابھی تک تین آشورین خواتین کی تصاویر سامنے آئی ہیں جنہیں سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا جا رہا ہے تاکہ ان کے اہل خانہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں تاوان ادا کرنے کے بعد ان کی رہائی کی کوشش کرسکیں۔ اگر ان کا “فدیہ” [تاوان] ادا نہ کیا جا سکا تو خواتین کی بے حرمتی کا خدشہ ہے۔ حال ہی میں امریکی ٹی وی اے-بی-سی نیوز نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکی امدادی کارکن کائلہ مولر کو اس کےقتل سے قبل داعشی خلیفہ ابو بکر البغدادی نے کئی بار مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔
16Aug15_AA آشورین02برطانوی اخبار ڈیلی میل نے سویڈن میں سرگرم آشورین الائنس کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں اس کا کہنا ہے کہ ‘داعش’ کی جانب سے جاری کردہ خواتین کی تصاویر اور ان کے نام حسہ سے یرغمال بنائے گئے سو سو بیس (220) آشوریائی باشندوں میں شامل خواتین سے ملتے جلتے ہیں۔

ڈیلی میل نے ‘داعش’ کی جانب سے جاری کردہ ایک ویڈیو فوٹیج کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں آٹھ آشوریائی یرغمالی مردوں کو بھی دکھایا گیا ہے جو اپنی رہائی کے لیے عالمی برادری سے مدد مانگ رہے ہیں۔ ممکنہ طور پر یہ تصاویر اور ویڈیو سترہ (17) جولائی کو جاری کی گئی ہے۔
16Aug15_AA آشورین03یاد رہے کہ داعشی جنگجوئوں نے رواں سال فروری میں شام کے شہر الحسکہ پر یلغار کر کے دو سو سے زائد آشوریائی مردو خواتین اور بچوں کو یرغمال بنالیا تھا۔ یرغمال بنائے گئے آشوریائی باشندوں میں سے صرف 22 کو رہا کیا گیا باقی ابھی تک لاپتا ہیں۔

رینجرز کی یقین دہانی، ایم کیو ایم کی ہڑتال کی کال واپس

10 August, 2015
10Aug15_DU رینجرز01DU

کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے اپنے نوجوان کارکن محمد ہاشم کے ” ماورائے عدالت قتل” کے خلاف کراچی سمیت سندھ بھر میں اپنی شٹر ڈاؤن پڑتال کی کال واپس لے لی.
اپنی شٹر ڈاؤن پڑتال کی کال واپس لے لی.ایم کیو ایم کی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق ہڑتال کی کال سندھ رینجرز کی جانب سے کارکن کی ہلاکت کی تحقیقات کی یقین دہانی کے بعد واپس لی گئی.ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رینجرز میجر جنرل بلال اکبر کی جانب سے محمد ہاشم کے قتل کی تحقیقات اور قاتلوں کی گرفتاری کی یقین دہانی کے بعد رابطہ کمیٹی نے اپنے ایک ہنگامی اجلاس میں ہڑتال کے فیصلے پر غور کیا اور یقین دہانی کو خوش آئند قرار دیا گیا.متحدہ کے قائد الطاف حسین نے بھی ہڑتال کا فیصلہ واپس لینے سے متعلق رابطہ کمیٹی کے فیصلے کی توثیق کی، ان کا کہنا تھا کہ “محمد ہاشم کا خون رائیگاں نہیں جائے گا”۔
Video

ترجمان رینجرز کے مطابق ڈی جی رینجرز کا کہنا ہے کہ “محمد ہاشم کے قتل کی تفتیش کی جائے گی اور ان کے قاتل جہاں کہیں بھی ہوں گے،انھیں گرفتار کیا جائے گا. یہ قتل شہر کے امن کے خلاف ایک سازش ہے”.رینجرز ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ” کل کوئی ہڑتال نہیں ہوگی”، “قتل کسی کا بھی ہو قابل مذمت ہے، تاہم بلاتحقیق ہڑتال شہری زندگی پر اثرانداز ہونے کے مترادف ہے”۔شہریوں سے دکانوں اور کاروبار کو جبراً بند کرانے کی اطلاع رینجرز ہیلپ لائن پر دینے پر زور دیتے ہوئے ترجمان رینجرز کا مزید کہنا تھا کہ “کسی کو بھی شہر کا امن تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی”.رینجرز کا یہ بیان ایم کیو ایم رہنما عبدالحسیب کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کے بعد سامنے آیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم میڈیا سیل اور یونٹ 164 لیاقت آباد کے رکن محمد ہاشم کو رواں برس 6 مئی کو نائن زیرو سے گھر جاتے ہوئے گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا تھا.عبدالحسیب کے مطابق ہاشم کے خاندان نے سندھ ہائی کورٹ میں ان کی بازیابی کے حوالے سے ایک پٹیشن بھی دائر کی تھی، جس کے بعد عدالتی احکامات پر 28 جولائی کو ایک ایف آئی آر درج کی گئی.اتوار کی رات محمد ہاشم کی لاش 3 ماہ کی گمشدگی کے بعد جامشور سے ملی جبکہ ایم کیو ایم رہنما عبدالحسیب کے مطابق ان کی تدفین پہلے ہی ایدھی کی جانب سے کی جاچکی ہے.ایم کیو ایم رہنما نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ 31 دسمبر 2014 سے لے کر اب تک پارٹی کے 20 کارکن لاپتہ ہوچکے ہیں جبکہ 35 کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا.ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے رکن واسع جلیل نے کراچی میں پر امن ہڑتال کا اعلان کیا اور تاجروں اور ٹرانسپورٹروں سے پارٹی کی ہڑتال کے سلسلے میں “یکجہتی کے اظہار”پر زور دیا.متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے جولائی میں اس وقت بھی احتجاج کیا گیا تھا جب حیدرآباد میں شادی میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے پارٹی کے کچھ کارکن” لاپتہ” ہوگئے تھے.جس کے بعد ایم کیو ایم کے کارکنوں نے امریکا میں وائٹ ہاؤس کے باہر بھی کراچی میں پارٹی کارکنوں کو نشانہ بنائے جانے کے خلاف احتجاج کیا.گذشتہ ماہ ایم کیو ایم قائد الطاف حسین نے سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے اپنے کارکنوں کی “غیر قانونی” حراست کے خلاف بھوک ہڑتال کا اعلان کیا تھا، تاہم پارٹی کارکنوں کی اپیل کے بعد انھوں نے اپنا یہ فیصلہ واپس لے لیا۔