Category: عراق

سنجار میں یزیدیوں کی لوٹ مار، مسجد اور مکانات نذرآتش

November 16, 201516Nov15_AA سنجر01al-Arabia

یزیدیوں نے سنی عربوں کے متعدد مکانوں کو لوٹنے کے بعد آگ لگادی
عراق کے شمالی قصبے سنجار میں یزیدی اقلیت سے تعلق رکھنے والے بلوائیوں نے مسلمانوں کے مکانوں کو لوٹ مار کے بعد نذر آتش کرنا شروع کردیا ہے اور انھوں نے ایک مسجد کو بھی شہید کردیا ہے۔عراق کے خود مختار علاقے کردستان سے تعلق رکھنے والی سکیورٹی فورسز البیشمرکہ اور یزیدی مسلح ملیشیا نے امریکی اتحادیوں کی فضائی مدد سے جمعہ کے روز سنجار پر دوبارہ قبضہ کیا تھا اور وہاں سے دولت اسلامیہ عراق وشام (داعش) کے جنگجو شکست کے بعد راہِ فرار اختیار کرگئے تھے۔داعش نے گذشتہ سال اگست میں اس قصبے پر قبضہ کیا تھا اور وہاں یزیدی فرقے کی خواتین اور مردوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔انھوں نے مردوں اور عورتوں کو بڑی تعداد کو قتل کردیا تھا اور عورتوں کو باندیاں بنا لیا تھا۔یزیدی فرقے سے تعلق رکھنے والے بعض افراد نے فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ قصبے کے بعض مکینوں نے داعش کے جنگجوؤں کو یزیدی فرقے کی نشان دہی میں مدد دی تھی۔

داعش کے اس قصبے پر قبضے کے بعد بعض مکینوں نے اپنے مکانوں کے بیرونی دروازوں پر لفظ ”سُنی” لکھ دیا تھا تا کہ وہ کسی قسم کی کارروائی سے بچے رہیں۔اب ایک عینی شاہد نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کے انہی مکانوں کو لوٹ مار کے بعد نذر آتش کیا گیا ہے جن کے باہر لفظ سُنی لکھا ہوا تھا۔اس عینی شاہد نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ یزیدیوں نے قصبے میں ایک مسجد کو بھی جلا دیا ہے اور اس نے خود یہ جلی ہوئی مسجد دیکھی ہے۔ایک اور عینی شاہد نے بھی اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر بتایا ہے کہ یزیدی مسلمانوں کے گھروں کو لوٹنے کے بعد نذرآتش کررہے ہیں۔

لیکن دوسری جانب کرد سکیورٹی فورسز البیشمرکہ کے سنجار میں کمانڈر نے مسلمانوں کے گھروں میں لوٹ مار اور انھیں نذرآتش کیے جانے کی اطلاعات سے انکار کیا ہے جبکہ ان بیانات کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہے۔یادرہے کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جنوری میں سنجار کے شمال میں واقع سنی عربوں کی آبادی والے دو دیہات پر یزیدی مسلح لشکریوں کے حملوں کی اطلاع دی تھی۔انھوں نے اکیس افراد کو ہلاک کردیا تھا اور متعدد گھروں کو جلا دیا تھا۔

عراق میں حالیہ مہینوں کے دوران داعش سے واپس لیے گئے دوسرے شہروں اور قصبوں میں بھی لُوٹ مار اور املاک کو نذرآتش کرنے کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جن کے پیش نظر اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ عراق میں جاری خانہ جنگی ان واقعات کے بعد نسلی اور فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرسکتی ہے اور اس سے تشدد کو تقویت مل سکتی ہے۔واضح رہے کہ یزیدی بھی نسلی اعتبار سے کرد ہیں مگر شمالی عراق میں مسلمانوں کی آمد کے بعد انھوں نے دین اسلام قبول نہیں کیا تھا اور اپنے قدیم مذہب ہی پر قائم رہے تھے۔یزیدی شمالی عراق میں چند قصبوں اور دیہات میں آباد ہیں۔داعش کے ہاتھوں یزیدیوں کی بڑی تعداد کی ہلاکتوں کو اقوام متحدہ نے نسل کشی سے تعبیر کیا تھا۔

صوبہ حمص میں دولت اسلامیہ کی پیش قدمی جاری

November 02, 201502Nov15_BBC حمص01BBC

اطلاعات کے مطابق دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے شام کے صوبے حمص کے شہر مہین میں حکومتی فوج کو پیچھے دھکیل کر قبضہ کر لیا ہے۔
شام میں انسانی حقوق کا مشاہدہ کرنے والے برطانیہ میں قائم ادارے کا کہنا ہے کہ سنیچر کی شام انھوں نے دو خودکش کار بم دھماکوں سے حملے کا آغاز کیا تھا۔
شامی باغی قیدیوں کو بطور انسانی ڈھال استعمال کر رہے ہیں۔ روس کا امریکہ کو مشرقِ وسطیٰ میں ’پراکسی وار‘ کا انتباہ
دوسری جانب عیسائی اکثریتی آبادی والے شہر صدد میں بھی لڑائی جاری تھی۔تازہ واقعات اس وقت پیش آئے ہیں جب روس اور امریکی اتحاد کی جانب سے فضائی حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔حالیہ مہینوں میں دولت اسلامیہ کی جانب سے شمالی اور مشرقی علاقوں سے جہاں کہ ان کی گرفت مضبوط ہے، حمص اور مرکزی شام کی طرف پیش قدمی جاری ہے۔ خیال رہے کہ قدیم پلمائرا کھنڈرات کے شہر تدمر پر یہ گروہ مئی میں قابض ہوچکا ہے جبکہ اگست میں انھوں نے القریتین کے شہر پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ 02Nov15_BBC حمص02دولت اسلامیہ کی جانب سے مہین اور صدد پر تازہ حملے حمص اور دیگر شمالی شہروں سے شام کے دارالحکومت دمشق جانے والی مرکزی شاہراہ سے 20 کلومیٹر دور کیے گئے ہیں۔انسانی حقوق کا مشاہدہ کرنے والے ادارے کا کہنا ہے کہ لڑائی کے دوران کم از کم 50 حکومتی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ دولت اسلامیہ کی جانب سے مہین میں حملوں کا آغاز ان کے پسندیدہ طریقہ کار یعنی ایک ساتھ دو خودکش کار بم دھماکوں سے کیا گیا تھا۔ادارے کا کہنا تھا کہ اطلاعات کے مطابق اتوار کی صبح تک پورا شہر دولت اسلامیہ کے قبضے میں چلا گیا ہے۔ دوسری جانب دولت اسلامیہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بھی کہا گیا ہے کہ شہر پر ان کا قبضہ ہے۔مہین میں بڑا فوجی اڈہ اور اسلحہ ڈپو موجود ہیں۔اسی دوران صدد کے نواحی علاقوں میں حکومتی فوج اور دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے درمیان لڑائی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس شہر میں شام کی آرامی عیسائی اقلیت آباد ہے اور آج بھی وہاں قدیم آرامی زبان بولی جاتی ہے۔02Nov15_BBC حمص03تازہ واقعہ اس وقت پیش آیا ہے جب شام کے صدر بشارالاسد کی حمایت میں روس کی جانب سے فضائی حملے جاری ہیں۔ روسی حکام کا کہنا ہے کہ ان کا ہدف دولت اسلامیہ اور دیگر ’شدت پسند گروہ‘ ہیں۔تاہم زیر حملہ علاقوں میں موجود امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے مغربی علاقوں میں اعتدال پسند باغیوں اور شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان علاقوں میں دولت اسلامیہ کے جنگجو یا تو بالکل نہیں ہیں اور اگر ہیں تو بہت معمولی تعداد میں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہفتے کے روز شامی فوج کے حملوں اور روسی فضائی حملوں سے شمالی صوبے حلب میں 60 سے زائد افراد ہلاک ہو ئے ہیں۔اس سے قبل امریکی حکام کا کہنا تھا کہ ’50 سے بھی کم امریکی فوجی‘ دولتِ اسلامیہ کے خلاف برسرِ پیکار حزبِ اختلاف کی فورسز کو ’تربیت، مشورے اور تعاون دینے کے لیے‘ شام روانہ کیے جائیں گے۔

داعش کے ہاتھوں ترکی میں دو صحافیوں کا قتل

October 31, 201531Oct15_AA داعش01

al-Arabia

شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ عراق وشام ‘داعش’ کے دہشت گردوں نے مبینہ طور پر شام کے دو سماجی کارکنوں کو ترکی میں قتل کردیا ہے۔”الرقہ میں خاموش قتل عام” نامی ایک مہم کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ مہم سے وابستہ سماجی کارکنوں ابراہیم عبدالقادر اور اس کے ساتھی فارس حمادی کو ترکی کے اورفا شہر میں ایک فلیٹ میں قتل کیاگیا۔ گذشتہ روز دونوں کو فلیٹ میں مردہ پایا گیا اور دونوں کے سرتن سے جدا کیے گئے تھے۔”الرقہ میں خاموش قتل” مہم کے بانی ابو محمد نے بتایا کہ ابراہیم عبدالقادر ان کے ساتھ ترکی میں کام کررہے تھے۔ انہیں داعش ہی نے قتل کیا ہے۔ابو محمد نے بتایا کہ مقتولین کا ایک تیسرا ساتھی حمادی کے گھرپرآیا اور اس نے بار بار دروازے پر دستک دی مگر اندر سے کوئی نہ آیا۔ جب وہ اندر داخل ہوئے تو دونوں خون میں لت پت پڑے تھے اور ان کے سرتن سے جدا کردیے گئے تھے۔ الرقہ میں داعش کے قبضے کے بعد ابراہیم عبدالقادر ترکی چلے گئے تھے جہاں وہ اپنے دوست فارس حمادی کے گھر میں رہ رہے تھے۔شام میں موجودگی کے دوران داعش نے عبدالقادر کو متعدد مرتبہ گرفتار کرنے اور اسے قاتلانہ حملے میں مارنے کی کوشش کی تھی مگر دہشت گرد شام میں اسے مارنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

خیال رہے کہ “الرقہ میں خاموش قتل عام” نامی مہم اپریل 2014ء سے جاری ہے جو خفیہ مقام سے شام بالخصوص الرقہ شہر میں ڈھائے جانے والے داعش کے مظالم کو بے نقاب کرتی رہتی ہے۔ اس مہم سے وابستہ کئی صحافیوں اور کارکنوں کو داعشی جنگجو پہلے بھی قتل اور اغوا کرچکے ہیں۔درایں اثناء ترک خبر رساں اداروں نے خبردی ہے کہ ترکی میں دو شامی صحافیوں کو پراسرار طورپر قتل کیا گیا ہے۔ پولیس نے قتل کے شبے میں سات شامی باشندوں کو گرفتار کیا ہے جن سے تفتیش جاری ہے۔

مشرقِ وسطیٰ میں تنازعات کا فوجی حل ناممکن

October 28, 201528Oct15_AA حل01al-Arabia

امریکا کے مرکزی خفیہ ادارے سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے سربراہ جان برینان نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے بعض حصوں میں جاری تنازعات کا فوجی حل ناممکن ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بعض ممالک کی موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں مؤثر مرکزی حکومتوں کے قیام کی تصویر دھندلی نظر آرہی ہے۔جان برینان واشنگٹن میں سراغرسانی سے موضوع پر منعقدہ ایک کانفرنس میں تقریر کررہے تھے۔اس کانفرنس میں دوسرے سکیورٹی عہدے داروں اور صنعتی ماہرین نے بھی گفتگو کی ہے۔

برینان نے کہا کہ ”جب میں لیبیا ، شام ،عراق اور یمن کی جانب دیکھتاہوں تو میرے لیے ان ممالک میں ایک ایسی مرکزی حکومت کا تصور کرنا بھی مشکل ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد ماضی میں کھینچی گئی سرحدوں کے مطابق ان ملکوں میں اپنا کنٹرول اور اتھارٹی قائم کرسکے”۔

انھوں نے کہا کہ ”ان ممالک میں جاری تنازعات کا فوجی حل ناممکن ہے۔تنازعات کے حل کے لیے آپ کو درجہ حرارت کم کرنے ،تنازعے کی شدت کو نیچے لانے کی ضرورت ہے۔ پھر آپ وہاں موجود ان تمام فریقوں کے درمیان اعتماد کی فضا قائم کریں جو تنازعات کے پُرامن حل میں سنجیدہ ہیں”۔

فرانس کی خارجہ انٹیلی جنس ایجنسی ڈی جی ایس ای کے سربراہ برنارڈ باجولٹ نے کانفرنس میں کہا کہ ”اس خطے کا موجودہ تنازعات کے پیش نظر اپنی پرانی ڈگر پر واپس آنا ممکن نظر نہیں آتا ہے”۔

ان کا کہنا تھا کہ ”جس مشرقِ وسطیٰ کو ہم جانتے ہیں،وہ ختم ہوچکا اور مجھے شک ہے کہ وہ دوبارہ واپس آئے گا کیونکہ شام پہلے ہی برسر زمین تقسیم ہوچکا ہے،اسد رجیم کا ملک کے بہت تھوڑے علاقے پر کنٹرول باقی رہ گیا ہے۔دوسری عالمی جنگ کے بعد معرض وجود میں آنے والے ملک کے ایک تہائی حصے پر ہی اسد حکومت کی عمل داری ہے جبکہ ملک کے شمال میں کردوں نے اپنی خود مختاری قائم کرلی ہے”۔

انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ”عراق میں بھی ہم یہی منظر دیکھ رہے ہیں۔مجھے اس میں شُبہ ہے کہ ان ممالک میں واقعی گذشتہ صورت حال دوبارہ لوٹ سکتی ہے”۔تاہم اس کے باوجود ان کا کہنا تھا کہ ”مجھے اعتماد ہے کہ ایک روز یہ پورا خطہ ایک مرتبہ پھر مستحکم ہوجائے گا”۔

امریکی اتحادیوں کی داعش مخالف فضائی مہم ٹھنڈی پڑ گئی

October 28, 2015
28Oct15_AA مہم جوئی01
al-Arabia

روس نے شام میں اسد مخالف باغی گروپوں کے خلاف حملے تیز کردیے
امریکا کی قیادت میں اتحادی ممالک نے شام میں داعش اور دوسرے سخت گیر گروپوں پر فضائی حملے عارضی طور پر روک دیے ہیں اور گذشتہ تین روز کے دوران میں ان کے لڑاکا طیاروں نے کوئی حملہ نہیں کیا ہے جبکہ دوسری جانب روس کے لڑاکا طیاروں نے صدر بشارالاسد کے مخالف باغی گروپوں کے خلاف فضائی حملے تیز کردیے ہیں۔

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان کے ڈیٹا کے مطابق اتحادی طیاروں نے شام میں آخری فضائی حملہ 22 اکتوبر کو کیا تھا اور اس میں داعش کی ایک گاڑی اور ایک مارٹر ٹیوب کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

امریکی اتحادیوں کے برعکس روسی فضائیہ نے شام میں فضائی بمباری تیز کردی ہے اور روس کی وزارت دفاع کی جانب سے سوموار کو جاری کردہ بیان کے مطابق اس کے لڑاکا طیاروں نے گذشتہ چوبیس گھنٹے کے دوران چورانوے اہداف کو نشانہ بنایا تھا۔

پینٹاگان کے ترجمان کیپٹن جیف ڈیوس کا کہنا ہے کہ ”روس کی وجہ سے شام میں فضائی حملے نہیں روکے گئے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم انٹیلی جنس اطلاعات کو ملاحظہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کہاں اہداف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنایا جاسکتا ہے اور کہاں شہریوں کے جانی نقصان کے بغیر اہداف پر بمباری کی جاسکتی ہے”۔

امریکا کی قیادت میں داعش مخالف اتحاد میں ساٹھ سے زیادہ ممالک شامل ہیں اور وہ جون 2014ء سے عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کررہے ہیں۔امریکی اتحادیوں نے گذشتہ سال ستمبر میں اس سخت گیر گروپ کے خلاف فضائی بمباری کا آغاز کیا تھا۔گذشتہ اتوار تک اتحادی طیاروں نے شام میں کل 2679 فضائی حملے کیے تھے۔

پینٹاگان کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق اتحادی طیاروں نے جولائی میں کل 359 فضائی حملے کیے تھے،اگست میں 206 اور ستمبر میں 115 حملے کیے تھے۔اس سے ظاہر ہے کہ گذشتہ تین ماہ کے دوران فضائی حملوں میں بتدریج کمی کی گئی ہے اور اس ماہ اب تک صرف 91 حملے کیے گئے ہیں۔

پینٹاگان کی ایک اور خاتون ترجمان کمانڈر ایلیسا اسمتھ کا کہنا ہے کہ ”ہم درست اہداف کی تلاش میں ہوتے ہیں،اس لیے انھیں نشانہ بنانے میں وقت لگتا ہے۔ہم ایسے ہی ہرکسی ہدف پر بمباری نہیں کردیتے ہیں بلکہ ایک منظم انداز میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کرتے ہیں”۔

واضح رہے کہ امریکا اور روس نے گذشتہ ہفتے مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے تھے اور انھوں نے ایسا میکانزم وضع کرنے سے اتفاق کیا تھا جس کے تحت شام میں دونوں ممالک کے ہواباز الگ الگ بمباری کریں گے اور ایک ملک کے ہواباز دوسرے ملک کے ہوابازوں کو فضائی مہم کی تکمیل کے لیے محفوظ راستہ دیں گے۔

روس نے 30 ستمبر کو شامی صدر بشارالاسد کی حمایت میں داعش اور دوسرے باغی گروپوں کے خلاف فضائی مہم کا آغاز کیا تھا مگر اس کو فضائی بمباری میں عام شہریوں کی ہلاکتوں پر کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ترکی اور مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ روسی طیارے داعش یا القاعدہ سے وابستہ گروپ النصرۃ محاذ کو اپنے حملوں میں نشانہ بنانے کے بجائے شامی فوج سے جنگ آزما دوسرے باغی گروپوں پر حملے کررہے ہیں اور ان حملوں کے نتیجے میں عام شہریوں کی ہلاکتیں ہورہی ہیں۔

شیخ نمر کے بارے میں سعودی شاہ سے عراقی مفتی کی اپیل

October 27, 2015
27Oct15_النمرعراق01

عراق کے مفتی نے سعودی عرب کے شاہ سے معروف شیعہ مذہبی رہنما شیخ باقر النمر کے کیس میں مداخلت کرکے ان کی سزائے موت کے فیصلے پر عملدرآمد روکے جانے کی اپیل کی ہے۔
عراق کے مفتی شیخ مہدی الصمیدعی نے پیر کے روز العالم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے سعودی عرب کے شاہ سلمان سے اپیل کی ہے کہ وہ، شیخ باقر النمر کے خلاف سنائے جانے والے ناحق فیصلے پر عملدرآمد رکوائیں۔ عراق کے مفتی نے کہا کہ شیخ باقر النمر کے خلاف عائد کیا جانے والا کوئی بھی الزام، ایسا نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر انھیں سزائے موت دی جائے۔ انھوں نے کہا کہ شیخ باقر النمر کے خلاف سزائے موت کا فیصلہ اس معروف شیعہ عالم دین اور سعودی عرب کے اس مذہبی رہنما پر سراسر ظلم ہے۔ واضح رہے کہ سعودی عرب کی عدالت عالیہ نے شیخ باقر النمر کے خلاف سزائے موت کے حکم کی توثیق کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد کے لئے اسے سعودی شاہ کے دفتر بھیج دیا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ شیخ باقر النمر کے خلاف سزائے موت کے فیصلے پر سعودی عرب اور بیرونی حلقوں میں شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔

عراقی فوج نے سال بعد ‘بیجی آئل ریفائنری داعش سے چُھڑالی

October 17, 2015
17Oct15_AA بیجی01
al-Arabia

عراقی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک سال سے دولت اسلامیہ عراق و شام “داعش” کے قبضے میں رہنے والی بیجی آئل ریفائنری اور بیجی شہر کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرتے ہوئے گھمسان کی لڑائی کے بعد داعش کو وہاں سے نکال باہر کیا ہے۔العربیہ ٹی وی کے مطابق عراقی فوج بیجی شہر کے جنوبی حصے سے اندر داخل ہوئی اور شدت پسندوں کے زیرقبضہ تیل صاف کرنے والے کار خانے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ عراقی فوج کاکہنا ہے کہ لڑائی کئی ہفتے جاری رہی جس میں دشمن کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ عراقی فوج نے نہ صرف بیجی شہر کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے بلکہ الفتحہ اور الصینیہ نامی علاقے بھی داعش سےچھڑا لیے گئے ہیں۔عراقی فوج، قبائلی جنگجوئوں اور کرد فوجیوں پر مشتمل مشترکہ فورس نے شمالی عراق میں داعش کے کئی ٹھکانوں کو تباہ کرتے ہوئے ان کے اسلحہ کے ذخائر کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

ایران شام وعراق میں ‘داعش’ کو اسلحہ فراہم کرتا ہے

October 16, 2015
16Oct15_AA داعش01al-Arabia

نوٹ: یہ یاد رہے کہ العربیہ حکومت سعودیہ کا ترجمان ہے

ایران کے ایک سابق سفارت کار نے دعویٰ کیا ہے کہ ایرانی حکومت شام اور عراق میں سرگرم شدت پسند تنظیم دولت اسلامی “داعش” کی فوجی مدد کر رہا ہے، حالانکہ ایران کا دعویٰ ہے کہ وہ شام اور عراق میں “داعش” کے خلاف لڑائی میں مصروف عمل ہے۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق ایران کے جاپان میں سابق سفیر ابو الفضل اسلامی نے لندن سے شائع ہونے والے فارسی جریدے”کیھان لندن” کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران عراق اور شام میں داعش کے وجود سے اپنے مفادات کے حصول کی کوشش کر رہا ہے۔ تہران بغداد اور دمشق میں داعش کے خلاف کارروائی کی آڑ میں داخل ہوا ہے۔ دونوں عرب ملکوں میں داعش کی سرکوبی ایران کا مطمع نظر نہیں بلکہ ایران داعش کو اسلحہ اور فوجی سازو سامان مہیا کر رہا ہے۔ابو الفضل اسلامی سابق صدر محمود احمدی نژاد کے دور حکومت میں ٹوکیو میں ایران کے سفیر تھے، تاہم بعد ازاں وہ ایرانی سرکار سے منحرف ہوگئےتھے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب میں سفیر تھا تو میں نے خود دیکھا ہے کہ ایرانی حکومت مختلف عقائد ونظریات رکھنے والے عسکری گروپوں کی مالی اور فوجی مدد کرتا رہا ہے۔ ایران کا دوسرے ملکوں میں سرگرم عسکریت پسند گروپوں کی مدد کا مقصد ان ملکوں میں بحران پیدا کرکے تہران کے مفادات کو تحفظ دینا ہے۔

داعش ایرانی مداخلت کا ذریعہ

ایرانی سفارت کار نے کہا کہ میں تھائی لینڈ کے صدر مقام بنکاک میں چار سال تک ایران کا سفیر رہا۔ میں نے یہ بات نوٹ کی کہ سفارت خانے کی جانب سے ہفتہ وار درخواست جاری کی جاتی جس میں پاسداران انقلاب کے طیاروں کو شمالی کوریا اسلحہ اور جنگی سامان لانے کے لے جاتے ہوئے ایندھن بھرنے کی اجازت مانگی جاتی تھی۔ بعد ازاں یہ اسلحہ لبنانی حزب اللہ کو مہیا کیا جاتا تھا۔سابق ایرانی سفارت کار نے بتایا کہ تہران شام میں داعش کے وجود کو اپنےلیے نعمت خیال کرتا ہے۔ اس میں کوئی شبے کی بات نہیں کہ عراق اور شام میں داعش ایران کے مفادات کے تحفظ کا دوسرا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے شام میں اور عراق میں داعش کو تواتر کے ساتھ اسلحہ اور جنگی سامان مہیا کیا جاتا ہے۔

روس ایران کی مدد سے شام میں سرگرم

شام میں روس کی فوجی مداخلت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ابو الفضل اسلامی نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں ایران کی طرح روس کے اپنے مفادات ہیں مگر روس کو اپنے دیرینہ اتحادی ایران کی ہرممکن معاونت بھی حاصل رہی ہے۔ روس اس وقت مشرق وسطیٰ میں اہم ترین کھلاڑی کے طور پر کھیل رہا ہے۔اس سے قبل ایران اور یورپ مل کر شام میں اپنے مفادات کا تحفظ کرتے رہے ہیں۔ میں نے سابق صدر محمد خاتمی کے دور میں بہ طورسفیر کام کیا۔ میری موجودگی میں یورپ اور ایران کے درمیان جوہری عدم پھیلائو کے معاہدے کے لیے مذاکرات ہوتے رہے۔ یورپی حکام کی طرف سے تہران کو بتایا گیا کہ روس کی عرب ایران اورعرب ملکوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں۔ ماسکو ان ملکوں کے مالی فوائد سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ روس کے مفادات اسی وقت تک ہیں جب تک تمہاری جیبیں خالی نہیں ہو جاتیں۔

ایرانی جنرل ہمدانی کی شام میں ہلاکت بارے متضاد روایات!

October 16, 2015
16Oct15_AA ھمدانی01al-Arabia

ایک ہفتہ پیشتر شام میں ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک سرکردہ عہدیدار جنرل علی ہمدانی کے قتل کے بعد ہلاکت کی متضاد تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ ایران کے ذرائع ابلاغ نے جنرل ہمدانی کی شام کے شہر حلب میں باغیوں کے ہاتھوں ہلاکت کو غیرمعمولی کوریج دی ہے اور ہلاکت کے پس منظر اور کیفیت کے بارے میں بھی مختلف واقعات بیان کیے جا رہے ہیں۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق جنرل ھمدانی کے قتل کے بارے میں ایک روایت ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے چیئرمین علی شمخانی بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسٹر ہمدانی کو شمالی حلب میں ایک انٹیلی جنس کارروائی کے دوران اس وقت ہلاک کیا گیا جب وہ یک گاڑی میں اپنے تین دیگر ساتھیوں کے ہمراہ چھپے ہوئے تھے۔جنرل ہمدانی کے قتل سے متعلق ایک دوسری روایت جو زیادہ مقبول ہو رہی ہے وہ پاسداران انقلاب کی جانب سے جاری کردہ بیان ہے۔ پاسداران انقلاب کے بیان میں کہا گیا ہے کہ میجر جرنل حسین ھمدانی حلب کے نواحلی علاقے میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامی “داعش” کے ساتھ لڑائی میں 8 اکتوبر کی رات کو ہلاک ہوئے۔ یوں پاسدارن انقلاب کے بیان اور سپریم سیکیورٹی کونسل کے سربراہ کے بیانات میں جنرل ھمدانی کی ہلاکت کی الگ الگ کیفیات بیان کی گئی ہیں۔علی شمحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن لوگوں نے حسن ہمدانی کو قتل کیا ہے وہ اچھی طرح ان سے واقف نہیں تھے، جب کہ پاسداران انقلاب کے بیان کے مطابق داعش کو علم تھا کہ حلب میں وہ جس کے خلاف لڑ رہے ہیں وہ ایران کے ایک سینیر عہدیدار حسین علی ہمدانی ہیں۔

ٹیکسٹ پیغام تنازع کا موجب
جنرل ہمدانی کی ہلاکت کے فوری بعد ایران کے ذرائع ابلاغ میں سب سے پہلے جو اطلاعات سامنے آئیں ان میں بتایا گیا کہ حسین علی ہمدانی شام میں ایک حادثے میں جاں بحق ہوئے ہیں۔ تنازع اس وقت پیدا ہوا جب پاسداران انقلاب کے عہدیداروں اور پاسیج فورس کے اہلکاروں نے اپنے موبائل پیغامات میں ایک دوسرے کو یہ بتانا شروع کیا کہ حسین ھمدانی حادثےمیں نہیں بلکہ شامی اپوزیشن کے حملے میں ہلاک ہوئے ہیں۔اس کے ساتھ ہی پاسداران انقلاب کے بعض ارکان کی طرف سے موبائل پر یہ پیغام بھی جاری کیا گیا کہ حسین ھمدانی حلب میں اس وقت ہلاک ہوئے جب ان کی جیپ ایک ٹرک کو اور ٹیک کرتے ہوئے بے قابو ہو کر الٹ گئی تھی۔ حسین ھمدانی حادثےمیں شدید زخمی ہوئے اور اسپتال لے جاتے ہوئے دم توڑ گئے تھے۔ یوں ٹیکسٹ پیغامات میں بھی جنرل ہمدانی کی ہلاکت کے بارے میں متضاد دعوے کیے جاتے رہے۔ ٹیکسٹ پیغام میں یہاں تک بتایا گیا تھا کہ جنرل ھمدانی جنوب مشرقی حلب سے حماۃ شہر کی جانب جا رہے تھے کہ خناصر اور اثریا قصبوں کے درمیان ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا۔

ایران میں سماجی کارکنوں نے سوشل میڈیا پر پاسداران انقلاب کے ارکان اور باسیج فورسز کے عہدیداروں کے بیانات کے برعکس جنرل ہمدانی کی ہلاکت کی الگ ہی کیفیت بیان کی۔ سماجی کارکنوں نے لکھا کہ سنہ 2009ء کے صدارتی انتخابات کے بعد ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے تو انہیں کچلنے کے لیے جنرل ہمدانی نے بھی حصہ لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں جنرل ہمدانی کو “ہیرو” نہیں سمجھا جاتا۔ سنہ 2009ء میں جنرل ہمدانی پاسداران انقلاب کے “محمد الرسول اللہ” بریگیڈ کے سربراہ تھے۔ وہ اپوزیشن کے اس حد تک خلاف تھے کہ اصلاح پسند رہ نمائوں میر حسین موسوی اور مہدی کروبی سمیت سرکردہ اپوزیشن لیڈروں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کرتے پائے گئے تھے۔

انٹیلی جنس کارروائی میں ہلاکت
ایران کی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ علی شمخانی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ جنرل حسین ھمدانی کو حلب میں ایک انٹیلی جنس کارروائی کے دوران ہلاک کیا گیا ہے۔ تہران میں جامع مسجد امام حسین میں ایک تقریب سے خطاب کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے علی شمخانی نے کہا کہ شام میں جنرل حسین ھمدانی کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ ان کا قتل انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ انہیں اس وقت انٹیلی جنس کارروائی میں مارا گیا جب وہ ایک کار میں اپنے تین دیگر ساتھیوں کے ہمراہ چھپے ہوئے تھے۔اس کے برعکس پاسداران انقلاب نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ حسین ھمدانی “داعش” ملیشیا کے حملے میں ہلاک ہوئے۔ فارسی نیوز ویب پورٹل” جماران” نے “محمد رسول اللہ ” بریگیڈ کے سربراہ محسن کاظمینی کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ حسین ہمدانی کو اس وقت ہلاک کیا گیا جب انہیں شام میں ایک سے دوسرے مقام پر منتقل کیا جا رہا تھا۔کاظمینی کا کہنا تھا کہ جنر حسین ھمدانی اپنے ڈرائیور کے ہمراہ جا رہے تھے کہ حلب کے قریب راستے میں دشمن کی جانب سے نصب کی گئی بارودی سرنگ پھٹنے سے جاں بحق ہوگئے۔ کاظمینی نے حسین ھمدانی کے قاتلوں کو “تکفیری” قرار دیتے ہوئے دھمکی دی کہ آئندہ ایام میں ھمدانی کے قاتلوں سے انتقام لیا جائےگا۔

داعش کے صف اول کے پانچ مدارالمہام جنگجوئوں کا تعارف

October 13, 2015
13Oct15_AA داعش01al-Arabia

شام اورعراق کے وسیع علاقے پر قابض دولت اسلامیہ “داعش” کی سرکوبی کے لیے اس وقت کئی ممالک سرگرم ہیں مگر ابھی تک نہ صرف تنظیم کا بنیادی ڈھانچہ قائم ہے بلکہ تنظیم کی مرکزی قیادت بہ شمول داعشی خلیفہ ابو بکر البغدادی کو بھی نقصان نہیں پہنچایا جاسکا ہے۔ اگرچہ عراقی حکومت اور امریکی فوج کی جانب سے داعش کی صف اول کی قیادت کے قافلوں کو بمباری سے نشانہ بنانے کے دعوے کیے جاتے رہے ہیں مگر ان حملوں میں داعش کو کتنا جانی نقصان پہنچایا گیا اس کی تفصیلات سامنے نہیں آسکی ہیں۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق اتوار کو عراقی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس کی فوج نے الانبار کے کربلہ علاقے میں “داعش” کے ایک قافلے کو نشنانہ بنایا گیا ہے۔ ممکنہ طور پر اس قافلے میں داعشی خلیفہ البغدادی اور ان کے نہایت قریبی حلقے کے جنگجو شامل تھے۔ عراقی انٹیلی جنس حملے میں داعش کو پہنچنے والے نقصان کی تحقیقات کررہی ہے۔”فاکس نیوز” ٹی وی چینل کی رپورٹ میں امریکی عسکری ذریعے کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ الکربلہ کے مقام پر عراقی فوج کے حملے میں البغدادی سمیت داعش کا کوئی مرکزہ رہ نما زخمی نہیں ہوا ہے تاہم عراقی حکام حادثے کے مقام سے DND کے نمونے حاصل کرنے کے بعد ان کی تحقیقات کررہے ہیں۔ عراقی حکام کے بہ جس قافلے کو بمباری سے نشانہ بنایا گیا ہے وہ داعشی خلفیہ کے قافلے کے اندز میں الکربلہ کی طرف رواں دواں تھا۔عراقی حکومت کی طرف سے اس طرح کے دعوے ماضی میں بھی کیے جاتے رہے ہیں۔ ان میں نومبر 2014ء میں البغدادی کے قافلے کو نشانہ بنائے جانے کے دعوے کی تحقیقات بھی ہنوز پردہ راز میں ہیں۔ اس سے قبل مارچ 2014ء میں بھی نینویٰ میں البلعاج کے مقام پر داعشی خلیفہ کے قافلے کو نشانہ بنائے جانے کا دعویٰ کیا گیا تھا تاہم اس حملے کی تحقیقات بھی سامنے نہیں آسکیں۔اس نوعیت کا جب بھی کوئی حملہ کیا گیا تو داعش کی جانب سے سوشل میڈیا پر اس کی تردید میں غیرمعمولی پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے۔ داعشی جنگجوئوں کا کہنا ہے کہ خلیفہ البغدادی کے مارے جانے کے بعد بھی “داعش” موجود رہے گی۔ اسے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔البغدادی کے مقربین کے حوالے سے بہت کم تفصیلات ذرائع ابلاغ تک پہنچتی ہیں۔ تاہم حال ہی میں برطانوی اخبار “ڈیلی اسٹار” نے البغدادی کے پانچ قابل اعتماد اور نہایت قریبی ساتھیوں کا تعارف شائع کیا ہے۔

العفری
13Oct15_AA داعش02
پچھلے سال مارچ میں عراقی حکومت کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ نینویٰ کے مقام پر داعشی خلیفہ البغدادی کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا جس میں ممکنہ طور پر البغدادی بری طرح زخمی ہوئے ہیں۔ عراقی حکومت کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ البغدادی کے زخمی ہونے کے بعد داعش نے علاء العفری نامی دوسرے داعشی کمانڈر کو خلیفہ کا نام مقرر کیا ہے۔علاء العفری کا اصل نام عبدالرحمان مصطفیی القادولی ہے۔ العفری عراق کی موصل گورنری میں فزکس کا استاد رہ چکا ہے اور اس کا شمار چوٹی کے دہشت گردوں میں ہوتا ہے۔ اس نے سنہ 1998ء میں افغانستان کے سفر کے دوران عسکری تربیت حاصل کی اور اسامہ بن لادن کی تنظیم القاعدہ میں سرگرم رہا۔ سنہ 2004ء میں وہ افغانستان سے عراق لوٹا۔ذرائع بتاتے ہیں کہ العفری القاعدہ میں اسٹریٹجک نوعیت کے معرکوں کا ماسٹر مائینڈ تھا۔ پچھلے سال مئی میں عراقی فوج کی جانب سے ایک فضائی حملے میں اس کے مارے جانے کا بھی دویٰ کیا گیا تھا تاہم امریکا نے العفری کی ہلاکت کی تردید کی تھی۔

الانباری
13Oct15_AA داعش03
داعش کے خود ساختہ خلیفہ ابو بکر البغدادی کے مقربین میں دوسرا نام ابو علی الانباری کا ملتا ہے۔ الانباری شام میں البغدادی کا نائب ہے اور اس کے براہ راست البغدادی سے رابطے ہیں۔ داعش میں اہم ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ تنظیم کی مرکزی شوریٰ کا رکن، البغدادی کا خصوصی ایلچی اور “الخلافہ” کی انتظامی کونسلوں کا انچارج ہے۔داعش سے منحرف ہونے والے جنگجوئوں کا بتانا ہے کہ الانباری نامی جنگجو کمانڈر تنظیم میں انٹیلی جنس کونسل، سیکیورٹی اور شام میں ہونے والی تمام آپریشنل کارروائیوں کا بھی انچارج ہے۔الانباری کا رہائشی تعلق موصل سے ہے تاہم اس نے اپنے نام کے ساتھ موصل کے بجائے الانبار کا لاحقہ شامل کیا ہے۔ وہ امریکا کے عراق پر صدام حسین کے خلاف کیے گئے آپریشن کے دوران عراقی فوج میں خدمات انجام دے چکا ہے۔ عراق پرامریکی قبضے کے بعد الانباری نے “انصارالاسلام” نامی گروپ میں شامل ہوگیا۔ بعد ازاں یہی تنظیم ابو مصعب الزرقاوی کی قیادت میں “دولت الاسلامی العراق والشام” کے نام میں تبدیل ہوگئی تھی۔

الشیشانی
13Oct15_AA داعش04
داعشی خلیفہ کے مقربین خاص کے حلقے میں شمالی شام کے ابو عمر الشیشانی نامی کمانڈر بھی سر فہرست ہیں۔ ابو عمر الشیشانی تنظیم کی مجلس شوریٰ کے رکن، اسٹریٹیجک کارروائیوں کے ماہر اور عراق میں تنظیم کا نیٹ ورک پھیلانے کے ماسٹر مائینڈ سمجھے جاتے ہیں۔الشیشیانی امریکا کی بلیک لسٹ میں شامل ہے اور اسے دنیا کے خطرناک ترین دہشت گردوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی خطرے کے پیش نظر امریکا نے الشیشانی کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر 50 لاکھ ڈالر کا انعام مقرر کر رکھا ہے۔ابو عمر الشیشیانی کا اصل نام “طارخان طایومورازفیٹچ ہے اور اس کا والد عیسیٰ جب کہ والدہ مسلمان تھی جس کا تعلق جارجیا سے تھا۔الشیشانی کو کچھ عرصہ قبل جارجیا میں غیرقانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا۔ جیل میں اس نے انتہا پسندانہ خیالات اپنائے اور رہائی کے بعد شام میں سرگرم داعش میں شامل ہوگیا۔

العدنانی
13Oct15_AA داعش05
ابومحمد العدنانی کا حقیقی نام طہ صبحی فلاحہ بتایا جاتا ہے۔ العدنانی داعش کا ترجمان اور نہایت بااثر شخص سمجھا جاتا ہے۔ داعش کے قیام کا اعلان سب سے پہلے اسی نے پڑھ کر سنایا اور البغدادی کو تنظیم کا خلیفہ بنانے کا بھی اعلان کیا۔العدنانی کا آبائی شہرادلب ہے۔ کئی دوسرے سرکردہ جنگجئوں کی طرح العدلانی بھی عراق اور افغانستان میں القاعدہ میں شامل رہا ہے۔ عراق میں سرگرم رہتے ہوئے وہ پانچ سال تک قید بھی رہ چکا ہے۔ رہائی کے بعد اس نے دوبارہ شدت پسندوں میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔العدنانی کے کمالات میں عسکری پسندوں کو متحد کرنا بھی شمل ہے۔ سنہ 2013ء میں العدنانی نے مغربی ممالک کے شہریوں کو داعش میں شمولیت کی دعوت دی جس کے بعد اسے عالمی شہرت حاصل ہوگئی تھی۔

الناصر
13Oct15_AA داعش06
داعشی کمانڈر ابو سلیمانی الناصر داعش کی عسکری کونسل کا سربراہ اور تنظیم کا کلیدی مہمات کا ذمہ دار ہے۔ اس کے بارے میں بہت کم لوگوں کوعلم ہے۔ داعش کے ماہرین کا کہنا ہے کہ الناصر کا اصل نام نعمان سلیمان منصور الزیدی ہے جو سنہ 2014ء میں داعش کی صف اول میں نمودار ہوا۔الناصر کی شہریت کے بارے میں مصدقہ اطلاعات نہیں مل سکی ہیں تاہم ممکنہ طورپر اسے شامی شہری ہی بتایا جتا ہے مگر اس کا خاندان مغربی پس منظر بھی رکھتا ہے۔الناصر نے عراق میں عسکری گروپوں کے ایک مرکز میں جنگی تربیت حاصل کی۔ سنہ 2003ء میں عراق میں امریکا کے ایک فضائی حملے میں بھی وہ معمولی زخمی ہوچکا ہے۔ دولت اسلامیہ عراق نے اسے سنہ 2010ء میں “وزیر دفاع” کا عہدہ سونپا۔کہا جاتا ہے کہ عراق میں امریکا کے زیرانتظام “بوکا” نامی ایک جیل میں بھی الناصر کو حراست میں رکھا گیا تھا۔ اسی جیل میں تنظیم کے سربراہ ابو بکر البغدادی بھی قید رہا۔