Category: Daulat Islamia

پیرس دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ کا پولیس محاصرہ

November 18, 201518Nov15_AA فرانس01al-Arabia

فائرنگ کے تبادلے میں ایک شخص ہلاک، متعدد زخمی ہوئے

فرانس کے دارلحکومت پیرس کے شمالی علاقے سان دونی میں پولیس کے انسداد دہشت گردی یونٹ کی ایک چھاپہ مار کارروائی کے بعد فائرنگ کے تبادلے میں ایک شخص ہلاک جبکہ متعدد دیگر زخمی ہو گئے۔متعدد ذرائع اور خبر رساں اداروں کا کہنا ہے پولیس نے اس وقت پیرس حملوں کے ماسٹر مائنڈ بلجیئم کے أبو عمر سمیت متعدد متشبہ افراد کا محاصرہ کر رکھا ہے۔پیرس سے ‘العربیہ’ کے نمائندے نے فائرنگ کے تبادلے میں دو پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاع بھی دی ہے۔ مراسلہ نگار کے مطابق تادم تحریر فائرنگ کا تبادلہ جاری تھا جس کے بعد سانی دونی کے مضافاتی علاقے میں میٹرو سروس بند کر دی گئی ہے۔ مشتبہ افراد اب بھی اس شمالی پیرس کے اس فلیٹ میں مجصور ہیں جس پر فرانس کی انسداد دہشت گردی پولیس کے یونٹ کے علی الصباح دھاوا بولا تھا۔

تفتیش سے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ فرانس کی لیگل پولیس کے ہمراہ انسداد دہشت گردی محکمہ کے اہلکار بھی منگل اور بدھ کی شب مارے جانے والوں چھاپوں میں شریک ہیں۔ ایک اور ذریعے کے مطابق فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے، تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہو سکا کہ متوقع گرفتاریوں کے تانے بانے پیرس دھماکوں سے ملتے ہیں یا نہیں۔

سنجار میں یزیدیوں کی لوٹ مار، مسجد اور مکانات نذرآتش

November 16, 201516Nov15_AA سنجر01al-Arabia

یزیدیوں نے سنی عربوں کے متعدد مکانوں کو لوٹنے کے بعد آگ لگادی
عراق کے شمالی قصبے سنجار میں یزیدی اقلیت سے تعلق رکھنے والے بلوائیوں نے مسلمانوں کے مکانوں کو لوٹ مار کے بعد نذر آتش کرنا شروع کردیا ہے اور انھوں نے ایک مسجد کو بھی شہید کردیا ہے۔عراق کے خود مختار علاقے کردستان سے تعلق رکھنے والی سکیورٹی فورسز البیشمرکہ اور یزیدی مسلح ملیشیا نے امریکی اتحادیوں کی فضائی مدد سے جمعہ کے روز سنجار پر دوبارہ قبضہ کیا تھا اور وہاں سے دولت اسلامیہ عراق وشام (داعش) کے جنگجو شکست کے بعد راہِ فرار اختیار کرگئے تھے۔داعش نے گذشتہ سال اگست میں اس قصبے پر قبضہ کیا تھا اور وہاں یزیدی فرقے کی خواتین اور مردوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔انھوں نے مردوں اور عورتوں کو بڑی تعداد کو قتل کردیا تھا اور عورتوں کو باندیاں بنا لیا تھا۔یزیدی فرقے سے تعلق رکھنے والے بعض افراد نے فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ قصبے کے بعض مکینوں نے داعش کے جنگجوؤں کو یزیدی فرقے کی نشان دہی میں مدد دی تھی۔

داعش کے اس قصبے پر قبضے کے بعد بعض مکینوں نے اپنے مکانوں کے بیرونی دروازوں پر لفظ ”سُنی” لکھ دیا تھا تا کہ وہ کسی قسم کی کارروائی سے بچے رہیں۔اب ایک عینی شاہد نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کے انہی مکانوں کو لوٹ مار کے بعد نذر آتش کیا گیا ہے جن کے باہر لفظ سُنی لکھا ہوا تھا۔اس عینی شاہد نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ یزیدیوں نے قصبے میں ایک مسجد کو بھی جلا دیا ہے اور اس نے خود یہ جلی ہوئی مسجد دیکھی ہے۔ایک اور عینی شاہد نے بھی اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر بتایا ہے کہ یزیدی مسلمانوں کے گھروں کو لوٹنے کے بعد نذرآتش کررہے ہیں۔

لیکن دوسری جانب کرد سکیورٹی فورسز البیشمرکہ کے سنجار میں کمانڈر نے مسلمانوں کے گھروں میں لوٹ مار اور انھیں نذرآتش کیے جانے کی اطلاعات سے انکار کیا ہے جبکہ ان بیانات کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہے۔یادرہے کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جنوری میں سنجار کے شمال میں واقع سنی عربوں کی آبادی والے دو دیہات پر یزیدی مسلح لشکریوں کے حملوں کی اطلاع دی تھی۔انھوں نے اکیس افراد کو ہلاک کردیا تھا اور متعدد گھروں کو جلا دیا تھا۔

عراق میں حالیہ مہینوں کے دوران داعش سے واپس لیے گئے دوسرے شہروں اور قصبوں میں بھی لُوٹ مار اور املاک کو نذرآتش کرنے کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جن کے پیش نظر اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ عراق میں جاری خانہ جنگی ان واقعات کے بعد نسلی اور فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرسکتی ہے اور اس سے تشدد کو تقویت مل سکتی ہے۔واضح رہے کہ یزیدی بھی نسلی اعتبار سے کرد ہیں مگر شمالی عراق میں مسلمانوں کی آمد کے بعد انھوں نے دین اسلام قبول نہیں کیا تھا اور اپنے قدیم مذہب ہی پر قائم رہے تھے۔یزیدی شمالی عراق میں چند قصبوں اور دیہات میں آباد ہیں۔داعش کے ہاتھوں یزیدیوں کی بڑی تعداد کی ہلاکتوں کو اقوام متحدہ نے نسل کشی سے تعبیر کیا تھا۔

پاکستان: سرکاری وعوامی سطح پر فرانس سے اظہار یکجہتی

November 16, 201516Nov15_AA نواز01al-Arabia

پاکستان نے فرانس کے دارالحکومت پیرس میں دہشت گردوں کے حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے ایک بیان میں کہا کہ وہ فرانس میں معصوم لوگوں کے خلاف اس دہشت گردی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔اُنھوں نے کہا کہ ضرورت کے اس وقت میں پاکستان فرانس کی حکومت اور وہاں کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ اُن کا ملک ان حملوں میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کرے گا۔اُدھر پاکستانی وزارت خارجہ سے جاری ایک بیان میں بھی پیرس میں حملوں میں ہونے والے جانی نقصان کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔بیان میں پاکستانی حکومت اور عوام کی طرف سے جانی نقصان پر فرانس کی حکومت اور عوام سے تعزیت کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ دکھ کی اس گھڑی میں پاکستان فرانس کے ساتھ کھڑا ہے۔وزارت خارجہ کے بیان میں ایک مرتبہ پھر حکومت کے اس موقف کو دہرایا گیا کہ پاکستان ہر طرح کی دہشت گردی کی شدید مذمت کرتا ہے۔پاکستانی حکومت کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں اور دینی حلقوں کی طرف سے بھی پیرس میں ہونے والے حملوں کی شدید مذمت کی گئی۔ملک میں سوشل میڈیا پر سرگرم افراد نے فرانس کے پرچم کے رنگوں سے اپنی ڈسپلے تصاویر کو اورلیپ کر کے فرانس کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔

دہشت گردی کے وحشیانہ افعال کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں

November 16, 201516Nov15_AA سلمان01al-Arabia

فرانس سے مل کر دہشت گردی کی جنگ لڑیں گے: شاہ سلمان
سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے فرانسیسی صدر فرانسو اولاند سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا ہے اور گذشتہ جمعہ کو پیرس میں مختلف مقامات پر ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کی شدید مذمت کی ہے۔سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی”واس” کے مطابق شاہ سلمان نے دہشت گردی کے واقعے میں فرانس میں ہونے والے قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی لعنت ایک ناسور ہے اور ہم سب مل کر اس کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔دونوں رہ نمائوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں باہمی تعاون مزید مستحکم اور مضبوط کرنے سے اتفاق کیا۔ شاہ سلمان نے فرانسیسی صدر سے کہا کہ دہشت گردی کی تمام شکلوں کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔
دنیا کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا ہے۔ دہشت گرد پوری دنیا کے امن واستحکام کے دشمن ہیں۔درایں اثناء شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائیٹ “ٹیوٹر” پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسلام کا ایسے وحشیانہ افعال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے دہشت گردی کے خلاف جنگ مزید موثربنانے کی ضرورت پر زور دیا۔قبل ازیں سعودی عرب کے وزیرخارجہ عادل الجبیر نے پیرس حملوں کو وحشیانہ بربریت قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پیرس حملوں میں ملوث عناصر کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔خیال رہے کہ جمعہ کو پیرس میں ہونے والی دہشت گردی میں کم سے کم 127 افراد ہلاک اور 300 زخمی ہو گئے تھے۔

پاکستان میں داعش کی موجودگی کے امکانات رد

November 15, 2015DI_00DU

اسلام آباد: پاکستان نے خود ساختہ دولت اسلامیہ (داعش) کی ملک میں موجودگی کے امکانات مسترد کر دیے۔
سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے اتوار کو ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان میں کسی کو داعش کے ساتھ روابط قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
DI_01چوہدری نے کہا کہ پاکستان داعش سمیت کسی بھی انتہا پسند تنظیم سے لاحق تمام خطرات سے نمنٹے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ ’پاکستان اپنی عوام کی مکمل حمایت کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت رہا ہے‘۔
DI_02دوسری جانب، سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی اور شدت پسندی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور وہ پیر س سانحہ پر فرانس کی حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔
DI_04دفتر خارجہ کے زیر اہتمام ایک تقریب سے خطاب میں صادق نے کہا کہ ایک دہائی سے زائد خود دہشت گردی کا نشانہ رہنے والا پاکستان دکھ اور تکلیف کی گھڑی میں فرانسیسی عوام کے ساتھ ہے۔جدید انسانی تہذیب کیلئےدہشت گردی کو ایک مشترکہ چیلنج قرار دیتے ہوئے صادق نے کہا کہ اس طرح کے حملے کوئی مذہبی یا اخلاقی جواز نہیں رکھتے۔
DI_05سپیکر قومی اسمبلی نے دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے مشترکہ عالمی کوششوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے غیر معمولی سٹریٹیجک اقدامات کے ذریعے جرات مندی سے اس لعنت کا مقابلہ کیا۔صادق نے بتایا کہ پاکستان اس لڑائی میں عالمی برادری کی مدد کیلئے تیار ہے۔
DI_03

پیرس حملےدولتِ اسلامیہ کا ’جنگی اقدام‘ ہیں: صدر اولاند

November 14, 201514Nov15_BBC پیرس01BBC

فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نےکہا ہے کہ فرانس میں گذشتہ روز ہونے والے حملے شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے کیے ہیں۔
سنیچر کی صبح اپنے بیان میں صدر نے کہا ہے کہ یہ ایک ’جنگی اقدام‘ ہے اور اس کے پیچھے دولتِ اسلامیہ ہے۔جمعے کی شب فرانس کے دارالحکومت پیرس میں چھ مقامات پر ہونے والے پرتشدد حملوں میں کم سے کم 127 ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے۔ادھر نہاد شدت پسند گروہ دولت اسلامیہ نے جمعہ کی شب پیرس میں حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔فرانس کے صدر نے اپنے بیان میں بتایا کہ حملہ آوروں کی تعداد آٹھ تھی جن میں خودکش حملہ آور بھی شامل تھے۔ انھوں نے کہا کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی بیرونِ ملک ہوئی ہے۔اس موقع پر صدر نے ملک میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر کے سرحدیں بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق فرانسیسی پروسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ حملوں میں کم ازکم 128 افراد ہلاک ہوئے ہیں اور 99 افراد شدید زخمی ہیں۔فرانس کے ہسپتالوں ایمرجنسی نافذ ہے اور خون کے عطیات کی اپیل کی جارہی ہے۔تحقیقات کا آغاز ہوگیا ہے اور فرانزک ٹیمز حملوں کے مقامات پر جا کر شواہد اکھٹے کر رہی ہیں۔اطلاعات کے مطابق پیرس کے بٹا کلان تھیٹر میں یرغمال بنائے جانے والے افراد میں کم سے کم 80 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔فرانس میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ پیرس کے فٹ بال سٹیڈیم، کانسرٹ تھیٹر اور ریسٹورنٹ سمیت چھ مختلف علاقوں میں مسلح افراد نے حملے کیے جن میں مبینہ خود کش دھماکے شامل ہیں۔

ایمرجنسی نافذ
فرانس کے صدر نے پیرس میں ہونے والے حملوں کے بعد عوام سے خطاب میں کہا کہ شہر میں فوج طلب کر لی گئی ہے اور ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر کے فرانس کی سرحد کو سیل کر دیا گیا ہے۔ پیرس شہر میں کم سے کم 1500 فوجی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اب تک آٹھ حملہ آوروں کو ہلاک کردیا گیا ہے تاہم ان کی اصل تعداد اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ پولیس کے مطابق بٹاکلان کانسرٹ ہال میں چار حملہ آور مارے گئے جن میں سے تین نے خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا۔تاحال ان حملوں کے مقاصد ظاہر نہیں ہوئے ہیں تاہم ایک عینی شاہد کے مطابق ایک حملہ آور نے دولتِ اسلامیہ کے ساتھ حمایت ظاہر کی۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک شخص چلا رہا تھا کہ ’یہ سب فرانسو اولاند کی غلطی ہے، انھیں شام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تھی۔‘

فرانس مغربی ممالک کے اتحاد میں شام ہے جو شام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف فضائی حملے کر رہا ہے۔پولیس کے آپریشن مکمل ہونے کے بعد فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے بٹاکلان تھیٹر کا دورہ کیا ہے۔عینی شاہدین کے مطابق پیرس میں سٹیڈیم کے باہر تین دھماکے ہوئے ہیں۔ دھماکوں کے وقت سٹیڈیم میں فرانس اور جرمنی کے درمیان دوستانہ فٹبال میچ ہو رہا تھا۔
14Nov15_BBC پیرس02سٹیڈیم میں میچ دیکھنے کے لیے فرانس کے صدر بھی موجود تھے لیکن انھیں سٹیڈیم سے بحفاظت نکال لیا گیا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ حملے منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے ہیں یا نہیں۔بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ انھوں ریسٹورنٹ کے باہر دس افراد کو سڑک پر پڑے دیکھا ہے۔ عوام سے کہا گیا ہے وہ اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے فرانس میں ہونے والے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انھیں ’قابل نفرت دہشت گرد حملے‘ قرار دیا ہے۔

نقل و حرکت میں کمی
پیرس حملوں کے بعد فرانس نے سرحدوں کا کنٹرول سخت کر دیا ہے تاہم فضائی اور ریل سروسز معمول کے مطابق جاری ہیں۔ملک کے تمام سکول، ہوٹل اور تفریح گاہیں بند کر دی گئی ہیں۔امریکی ہوائی کمپنیوں نے حملوں کے پیشِ نظر شہر کے لیے اپنی پروازیں معطل کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم دیگر فضائی کمپنیوں کی پروازیں معمول کے مطابق چل رہی ہیں۔گو کہ پیریس آنے والی بین الاقوامی ٹرین سروس بھی کھلی ہے تاہم لندن سے پیرس آنے والی یوروسٹر ٹرین جو مکمل طور پر بُک تھی حملوں کے بعد خالی ہی آئی ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق برطانوی ایئرلائنز نے پیرس آنے والی پروازوں میں تاخیر کا اعلان کیا ہے جس کی وجہ سکیورٹی چیک بتائی گئی ہے۔ادھر فرانس حملوں کے بعد اٹلی میںبھی سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔ایران کے صدر حسن روحانی نے بھی دورہ فرانس ملتوی کر دیا ہے۔ انھیں سنیچر کو روم اور اتوار کو پیرس پہنچنا تھا۔
14Nov15_BBC پیرس03

بم تباہ ہونے والے روسی جہاز کے اندر ہی تھا

November 06, 201506Nov15_BBC01 جہازBBC

بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ مصر میں تباہ ہونے والے روسی مسافر طیارے کی تباہی کی وجوہات کا جائزہ لینے والے برطانوی تحقیق کاروں کا خیال ہے کہ بم جہاز کے اندر موجود تھا۔انٹیلیجنس اہلکاروں نے اس سلسلے میں جزیرہ نما سینا میں شدت پسندوں کے پیغامات پکڑے تھے جس کے بعد برطانوی حکومت نے اسے دہشت گرد کارروائی قرار دیا ہے۔
برطانیہ نے مصر کے علاقے شرم الشیخ جانے والی پروازوں کو منسوخ کر دیا ہے جبکہ وہاں موجود برطانوی شہری جمعے سے وطن واپس آنا شروع ہو گئے ہیں۔ انھیں اپنے پاس صرف دستی سامان لانے کی اجازت ہے۔میٹرو جیٹ ایئر بس اے 321 شرم الشیخ سے سینٹ پیٹرزبرگ جا رہی تھی کہ فضا میں تباہ ہو گئی اور اس میں سوار تمام 224 افراد ہلاک ہو گئے۔ زیادہ تر مسافر روسی باشندے تھے۔بی بی سی کے سکیورٹی نامہ نگار فرینک گارڈنر کا کہنا ہے کہ گو کہ برطانوی تفتیش کاروں نے حادثے کے لیے تکنیکی خرابی کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا ہے لیکن ان کا خیال ہے ایسا ہونے کا امکان بہت کم ہے۔برطانوی سکیورٹی سروس کو شبہ ہے کہ جہاز اڑنے سے کچھ دیر قبل کسی ایسے شخص نے سامان میں یا اس کے اوپر دھماکہ خیز آلہ نصب کیا جسے جہاز کے سامان رکھنے کی جگہ تک رسائی حاصل تھی۔
06Nov15_BBC 02 جہازدولتِ اسلامیہ سے منسلک صحرائے سینا کے ایک عسکریت پسند گروہ نے دعوی کیا ہے کہ جہاز اس نے تباہ کیا ہے۔ دولتِ اسلامیہ نے شام میں اپنے خلاف حملوں کے باعث روس اور امریکہ دونوں کے خلاف اعلانِ جنگ کر رکھا ہے۔امریکی صدر براک اوباما نے بھی جمعرات کو بی بی سی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ممکن ہے کہ تباہ ہونے والے جہاز پر بم موجود تھا۔‘ ان کا کہنا تھا ’یہ بات ہم انتہائی سنجیدگی سے کہہ رہے ہیں۔‘تاہم مصر اور روس دونوں کا کہنا ہے کہ ابھی کوئی نتیجہ اخذ کرنا جلد بازی ہو گا۔بدھ سے برطانیہ سمیت متعدد ممالک نے شرم الشیخ کے لیے پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔ فرانس اور بیلجیئم نے اپنے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ اس علاقے میں غیر ضروری سفر سے اجتناب کریں۔تاہم روسی جہاز اب بھی اس علاقے سے پرواز کر رہے ہیں۔ روسی صدر کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’جہاز کے ساتھ کیا ہوا اس سے متعلق سرکاری تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعد ہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔‘مصری معیشت سیاحت پر بہت انحصار کرتی ہے۔ اس نے برطانیہ کی جانب سے پروازوں کی منسوخی کو غیر منطقی قرار دیا ہے۔برطانیہ میں موجود روسی صدر عبدالفتح السیسی نے کہا ہے کہ برطانیہ کی درخواست پر دس ماہ پہلے سے مصر کے ہوائی اڈوں پر سکیورٹی سخت کر دی گئی تھی۔تاہم انھوں نے کہا کہ وہ برطانیہ کے خدشات کو سمجھتے ہیں۔

شام:قیدیوں کا انسانی ڈھال کے طور پر استعمال

November 02, 201502Nov15_AA ڈھال01BBC

ہنی پنجروں میں بند لوگوں کو سڑکوں پر گھمایا جاتا ہے
شام کے دارالحکومت دمشق کے قریب مشرقی الغوطہ کے علاقے دوما میں “جیش الاسلام” نامی ایک حکومت مخالف تنظیم نے یرغمال بنائے گئے سرکاری فوجیوں اور بشارالاسد کے حامیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔شام میں انسانی حقوق کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ادارے”سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائیٹس” کے ڈائریکٹر رامی عبدالرحمان نے انٹرنیٹ پر پوسٹ کی گئی ایک فوٹیج کا حوالہ دیا جس میں “جیش الاسلام” نامی ایک تنظیم کے ہاں یرغمال بنائے گئے شامی فوجیوں اور بشارالاسد کے حامی مرد وخواتین کو آہنی پنجروں میں بند دوما کی سڑکوں پر ٹرکوں پر گھماتے دکھایا ہے۔
02Nov15_AA ڈھال02باغیوں کے اس اقدام کا مقصد شامی فوج کی جانب سے دوما میں مزید بمباری روکنا ہے۔فوٹیج میں “جیش الاسلام” کے ایک جنگجو کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ آہنی پنجروں میں بند حکومت کے حامیوں کو کھلی سڑکوں پر پھرانے کا مقصد شامی فوج کی علاقے میں بمباری رکوانا ہے۔دوما کے علاقے میں ایسے دسیوں پنجرے جگہ جگہ پر موجود ہیں اور کچھ پنجروں کو ٹرکوں پر لادیا گیا ہے جو دوما کی سڑکوں پر چلتے رہتے ہیں۔ ان میں پانچ سے آٹھ افراد کو قید کیا گیا ہے۔ قیدیوں میں اسدی فوجی اور خواتین بھی شامل ہیں۔قیدیوں میں ایک شامی فوجی جو خود کو کرنل کے عہدے کا افسر بتاتا ہے کا کہنا ہے کہ ہم تین سال سے جیش الاسلام کی قید میں ہیں۔ ہم شامی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ دوما میں شہریوں پر بمباری نہ کرے۔
02Nov15_AA ڈھال03خیال رہے کہ جیش الاسلام نامی اس تنظیم نے شامی فوجیوں اور حکومت کے دسیوں حامیوں کو شمال مشرقی غوطہ کے دوما قصبے میں عدرا العمالیہ کےمقام سے دو سال قبل یرغمال بنایا تھا۔ قیدیوں کو ڈھال کے طور پر ایک ایسے وقت میں استعمال کیا جانے لگا ہے جب گذشتہ جمعہ کو شامی فوج نے دوما کے ایک مصروف بازار میں بمباری کرکے 70 افراد کو ہلاک اور 550 سے زائد کو زخمی کر دیا تھا۔

صوبہ حمص میں دولت اسلامیہ کی پیش قدمی جاری

November 02, 201502Nov15_BBC حمص01BBC

اطلاعات کے مطابق دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے شام کے صوبے حمص کے شہر مہین میں حکومتی فوج کو پیچھے دھکیل کر قبضہ کر لیا ہے۔
شام میں انسانی حقوق کا مشاہدہ کرنے والے برطانیہ میں قائم ادارے کا کہنا ہے کہ سنیچر کی شام انھوں نے دو خودکش کار بم دھماکوں سے حملے کا آغاز کیا تھا۔
شامی باغی قیدیوں کو بطور انسانی ڈھال استعمال کر رہے ہیں۔ روس کا امریکہ کو مشرقِ وسطیٰ میں ’پراکسی وار‘ کا انتباہ
دوسری جانب عیسائی اکثریتی آبادی والے شہر صدد میں بھی لڑائی جاری تھی۔تازہ واقعات اس وقت پیش آئے ہیں جب روس اور امریکی اتحاد کی جانب سے فضائی حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔حالیہ مہینوں میں دولت اسلامیہ کی جانب سے شمالی اور مشرقی علاقوں سے جہاں کہ ان کی گرفت مضبوط ہے، حمص اور مرکزی شام کی طرف پیش قدمی جاری ہے۔ خیال رہے کہ قدیم پلمائرا کھنڈرات کے شہر تدمر پر یہ گروہ مئی میں قابض ہوچکا ہے جبکہ اگست میں انھوں نے القریتین کے شہر پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ 02Nov15_BBC حمص02دولت اسلامیہ کی جانب سے مہین اور صدد پر تازہ حملے حمص اور دیگر شمالی شہروں سے شام کے دارالحکومت دمشق جانے والی مرکزی شاہراہ سے 20 کلومیٹر دور کیے گئے ہیں۔انسانی حقوق کا مشاہدہ کرنے والے ادارے کا کہنا ہے کہ لڑائی کے دوران کم از کم 50 حکومتی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ دولت اسلامیہ کی جانب سے مہین میں حملوں کا آغاز ان کے پسندیدہ طریقہ کار یعنی ایک ساتھ دو خودکش کار بم دھماکوں سے کیا گیا تھا۔ادارے کا کہنا تھا کہ اطلاعات کے مطابق اتوار کی صبح تک پورا شہر دولت اسلامیہ کے قبضے میں چلا گیا ہے۔ دوسری جانب دولت اسلامیہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بھی کہا گیا ہے کہ شہر پر ان کا قبضہ ہے۔مہین میں بڑا فوجی اڈہ اور اسلحہ ڈپو موجود ہیں۔اسی دوران صدد کے نواحی علاقوں میں حکومتی فوج اور دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے درمیان لڑائی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس شہر میں شام کی آرامی عیسائی اقلیت آباد ہے اور آج بھی وہاں قدیم آرامی زبان بولی جاتی ہے۔02Nov15_BBC حمص03تازہ واقعہ اس وقت پیش آیا ہے جب شام کے صدر بشارالاسد کی حمایت میں روس کی جانب سے فضائی حملے جاری ہیں۔ روسی حکام کا کہنا ہے کہ ان کا ہدف دولت اسلامیہ اور دیگر ’شدت پسند گروہ‘ ہیں۔تاہم زیر حملہ علاقوں میں موجود امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے مغربی علاقوں میں اعتدال پسند باغیوں اور شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان علاقوں میں دولت اسلامیہ کے جنگجو یا تو بالکل نہیں ہیں اور اگر ہیں تو بہت معمولی تعداد میں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہفتے کے روز شامی فوج کے حملوں اور روسی فضائی حملوں سے شمالی صوبے حلب میں 60 سے زائد افراد ہلاک ہو ئے ہیں۔اس سے قبل امریکی حکام کا کہنا تھا کہ ’50 سے بھی کم امریکی فوجی‘ دولتِ اسلامیہ کے خلاف برسرِ پیکار حزبِ اختلاف کی فورسز کو ’تربیت، مشورے اور تعاون دینے کے لیے‘ شام روانہ کیے جائیں گے۔

داعش کا گروپ پاکستان میں بعض عناصر کو استعمال کر سکتا ہے

November 01, 201501Nov15_VOA داعشVOA

یہ بات تجزیہ کاروں نے اردو سروس کے پروگرام جہاں رنگ میں بات کرتے ہوئے کہی۔ اُنھوں نے اس بات کی جانب بھی توجہ دلائی کہ سرکاری ایجنسیاں داعش کے عنصر کو یونہی نظرانداز نہیں کرسکتیں
بعض ممتاز تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گرچہ پاکستان میں سرکاری ایجنسیاں دعویٰ کرتی ہیں کہ ملک میں داعش کا وجود نہیں ہے۔ تاہم، بعض ایسے عناصر موجود ہیں جن سے داعش کا گروپ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
اردو سروس کے پروگرام ’جہاں رنگ‘ میں پاکستان کے معروف دفاعی تجزیہ کار، ریٹائرڈ جنرل طلعت مسعود اور لندن میں مقیم جنگی مطالعے کے ایک ماہر، سنگین شاہ نے میزبان اسد حسن کو بتایا کہ داعش کا گروپ عام طور پر لوگوں کے درمیان فرقہ وارانہ نسلی اور دوسرے اختلافات یا تعصبات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے، اور بقول اُن کے، ’پاکستانی معاشرے میں ایسی غلط سوچ کا وجود پایا جاتا ہے‘۔
دونوں تجزیہ کاروں نے اس بات کی جانب بھی توجہ دلائی کہ سرکاری ایجنسیاں داعش کے عنصر کو یونہی نظرانداز نہیں کرسکتیں۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں داعش کی موجودگی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔