Category: Al_Nusra

روسی حملوں کے بعد شامی فوج کی پیش قدمی جاری ہے: اسد

November 22, 2015
22Nov15_AA شامی01
al-Arabia

شامی تنازعہ ”دہشت گردی” کو شکست سے دوچار کیے بغیر حل نہیں ہوگا

شامی صدر بشارالاسد نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ روس کی فضائی مدد آنے کے بعد ان کے وفادار فوجی قریباً ہر محاذ پر پیش قدمی کررہے ہیں۔انھوں نے اتوار کے روز ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے فونیکس ٹیلی ویژن کے ساتھ انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ ماسکو میں نئے امن مذاکرات کی حمایت کریں گے لیکن انھوں نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ ” شامی تنازعہ ”دہشت گردی” کو شکست سے دوچار کیے بغیر حل نہیں ہوگا”۔بشارالاسد نے کہا کہ ”شام میں 30 ستمبر کو روس کے فضائی حملوں کے آغاز کے بعد صورت حال ”بڑے اچھے” طریقے سے بہتر ہوئی ہے اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ فوج قریبا ہر محاذ پر مختلف سمتوں سے پیش قدمی کررہی ہے”۔روس دمشق حکومت کے ساتھ روابط کے ذریعے شام کے مختلف علاقوں میں داعش اور دوسرے باغی گروپوں کے ٹھکانوں پر بمباری کررہا ہے جبکہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک از خود ہی شام کے پیشگی علم میں لائے بغیر داعش یا القاعدہ سے وابستہ جنگجو گروپ النصرۃ محاذ کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کررہے ہیں۔روس عالمی سفارتی محاذ پر بھی بشارالاسد کا سب سے بڑا پشتی بان ہے اور وہ ان کی اقتدار سے رخصتی کی بھی مخالفت کررہا ہے جبکہ دوسرے ممالک کا بنیادی مطالبہ ہی یہی ہے کہ شامی صدر بحران کے پُرامن حل کے لیے فوری طور پر اقتدار سے دستبردار ہوجائیں۔مگر بشارالاسد اقتدار چھوڑنا تو درکنار آیندہ صدارتی امیدوار بننے کو تیار بیٹھے ہیں اور انھوں نے اس انٹرویو میں اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”نئے انتخابات میں حصہ لینا میرا حق ہے۔البتہ اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ میں ان انتخابات میں حصہ لیتا بھی ہوں یا نہیں۔یہ فیصلہ اس امر منحصر ہوگا کہ شامی عوام کے بارے میں میرے کیا احساسات ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ وہ مجھے چاہتے ہیں یا نہیں”۔

ان کا کہنا تھا کہ ”آپ ایسی کسی چیز کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں جو آیندہ چند سال میں ہونے جارہی ہے”۔انھوں نے شامی حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ماسکو میں نئے امن مذاکرات کے انعقاد کی حمایت کا اظہار کیا ہے مگر ان کا بالاصرار کہنا ہے کہ ”دہشت گردی” کو شکست سے دوچار کرنے کے بعد ہی بحران کا کوئی سیاسی حل تلاش کیا جاسکتا ہے”۔شامی صدر کا کہنا تھا کہ ملک کا نیا آئین بنانے اور اس پر ریفرینڈم کے انعقاد میں زیادہ سے زیادہ دو سال کا عرصہ درکار ہوگا۔واضح رہے کہ بشارالاسد اور ان کی حکومت ان تمام باغی جنگجو گروہوں کو ”دہشت گرد” قرار دیتے ہیں جنھوں نے ان کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں۔

انھوں نے شامی حزب اختلاف کی حمایت کرنے والے مغربی اور دوسرے ممالک پر انتہاپسندی کی پشت پناہی کا الزام عاید کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ مغرب نے ایک شامی مہاجر بچے ایان کردی کی تصویر سے فائدہ اٹھایا ہے۔اس کو پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا ہے اور انھوں نے حزب اختلاف کے پشتی بانوں پر دہشت گردی کی مدد وحمایت کے ذریعے شامیوں کو بیرون ملک جانے پر مجبور کیا ہے۔صدر بشارالاسد نے کہا کہ ”یہ بچہ اور دوسرے بچے اس خطے اور دنیا بھر میں مغرب کی پالیسیوں کی وجہ سے مارے جارہے ہیں اور مصائب جھیل رہے ہیں”۔

ایرانی جنرل ہمدانی کی شام میں ہلاکت بارے متضاد روایات!

October 16, 2015
16Oct15_AA ھمدانی01al-Arabia

ایک ہفتہ پیشتر شام میں ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک سرکردہ عہدیدار جنرل علی ہمدانی کے قتل کے بعد ہلاکت کی متضاد تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ ایران کے ذرائع ابلاغ نے جنرل ہمدانی کی شام کے شہر حلب میں باغیوں کے ہاتھوں ہلاکت کو غیرمعمولی کوریج دی ہے اور ہلاکت کے پس منظر اور کیفیت کے بارے میں بھی مختلف واقعات بیان کیے جا رہے ہیں۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق جنرل ھمدانی کے قتل کے بارے میں ایک روایت ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے چیئرمین علی شمخانی بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسٹر ہمدانی کو شمالی حلب میں ایک انٹیلی جنس کارروائی کے دوران اس وقت ہلاک کیا گیا جب وہ یک گاڑی میں اپنے تین دیگر ساتھیوں کے ہمراہ چھپے ہوئے تھے۔جنرل ہمدانی کے قتل سے متعلق ایک دوسری روایت جو زیادہ مقبول ہو رہی ہے وہ پاسداران انقلاب کی جانب سے جاری کردہ بیان ہے۔ پاسداران انقلاب کے بیان میں کہا گیا ہے کہ میجر جرنل حسین ھمدانی حلب کے نواحلی علاقے میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامی “داعش” کے ساتھ لڑائی میں 8 اکتوبر کی رات کو ہلاک ہوئے۔ یوں پاسدارن انقلاب کے بیان اور سپریم سیکیورٹی کونسل کے سربراہ کے بیانات میں جنرل ھمدانی کی ہلاکت کی الگ الگ کیفیات بیان کی گئی ہیں۔علی شمحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن لوگوں نے حسن ہمدانی کو قتل کیا ہے وہ اچھی طرح ان سے واقف نہیں تھے، جب کہ پاسداران انقلاب کے بیان کے مطابق داعش کو علم تھا کہ حلب میں وہ جس کے خلاف لڑ رہے ہیں وہ ایران کے ایک سینیر عہدیدار حسین علی ہمدانی ہیں۔

ٹیکسٹ پیغام تنازع کا موجب
جنرل ہمدانی کی ہلاکت کے فوری بعد ایران کے ذرائع ابلاغ میں سب سے پہلے جو اطلاعات سامنے آئیں ان میں بتایا گیا کہ حسین علی ہمدانی شام میں ایک حادثے میں جاں بحق ہوئے ہیں۔ تنازع اس وقت پیدا ہوا جب پاسداران انقلاب کے عہدیداروں اور پاسیج فورس کے اہلکاروں نے اپنے موبائل پیغامات میں ایک دوسرے کو یہ بتانا شروع کیا کہ حسین ھمدانی حادثےمیں نہیں بلکہ شامی اپوزیشن کے حملے میں ہلاک ہوئے ہیں۔اس کے ساتھ ہی پاسداران انقلاب کے بعض ارکان کی طرف سے موبائل پر یہ پیغام بھی جاری کیا گیا کہ حسین ھمدانی حلب میں اس وقت ہلاک ہوئے جب ان کی جیپ ایک ٹرک کو اور ٹیک کرتے ہوئے بے قابو ہو کر الٹ گئی تھی۔ حسین ھمدانی حادثےمیں شدید زخمی ہوئے اور اسپتال لے جاتے ہوئے دم توڑ گئے تھے۔ یوں ٹیکسٹ پیغامات میں بھی جنرل ہمدانی کی ہلاکت کے بارے میں متضاد دعوے کیے جاتے رہے۔ ٹیکسٹ پیغام میں یہاں تک بتایا گیا تھا کہ جنرل ھمدانی جنوب مشرقی حلب سے حماۃ شہر کی جانب جا رہے تھے کہ خناصر اور اثریا قصبوں کے درمیان ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا۔

ایران میں سماجی کارکنوں نے سوشل میڈیا پر پاسداران انقلاب کے ارکان اور باسیج فورسز کے عہدیداروں کے بیانات کے برعکس جنرل ہمدانی کی ہلاکت کی الگ ہی کیفیت بیان کی۔ سماجی کارکنوں نے لکھا کہ سنہ 2009ء کے صدارتی انتخابات کے بعد ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے تو انہیں کچلنے کے لیے جنرل ہمدانی نے بھی حصہ لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں جنرل ہمدانی کو “ہیرو” نہیں سمجھا جاتا۔ سنہ 2009ء میں جنرل ہمدانی پاسداران انقلاب کے “محمد الرسول اللہ” بریگیڈ کے سربراہ تھے۔ وہ اپوزیشن کے اس حد تک خلاف تھے کہ اصلاح پسند رہ نمائوں میر حسین موسوی اور مہدی کروبی سمیت سرکردہ اپوزیشن لیڈروں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کرتے پائے گئے تھے۔

انٹیلی جنس کارروائی میں ہلاکت
ایران کی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ علی شمخانی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ جنرل حسین ھمدانی کو حلب میں ایک انٹیلی جنس کارروائی کے دوران ہلاک کیا گیا ہے۔ تہران میں جامع مسجد امام حسین میں ایک تقریب سے خطاب کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے علی شمخانی نے کہا کہ شام میں جنرل حسین ھمدانی کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ ان کا قتل انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ انہیں اس وقت انٹیلی جنس کارروائی میں مارا گیا جب وہ ایک کار میں اپنے تین دیگر ساتھیوں کے ہمراہ چھپے ہوئے تھے۔اس کے برعکس پاسداران انقلاب نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ حسین ھمدانی “داعش” ملیشیا کے حملے میں ہلاک ہوئے۔ فارسی نیوز ویب پورٹل” جماران” نے “محمد رسول اللہ ” بریگیڈ کے سربراہ محسن کاظمینی کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ حسین ہمدانی کو اس وقت ہلاک کیا گیا جب انہیں شام میں ایک سے دوسرے مقام پر منتقل کیا جا رہا تھا۔کاظمینی کا کہنا تھا کہ جنر حسین ھمدانی اپنے ڈرائیور کے ہمراہ جا رہے تھے کہ حلب کے قریب راستے میں دشمن کی جانب سے نصب کی گئی بارودی سرنگ پھٹنے سے جاں بحق ہوگئے۔ کاظمینی نے حسین ھمدانی کے قاتلوں کو “تکفیری” قرار دیتے ہوئے دھمکی دی کہ آئندہ ایام میں ھمدانی کے قاتلوں سے انتقام لیا جائےگا۔

النصرۃ محاذ: بشارالاسد اور حسن نصراللہ کے سَر کی قیمت مقرر

October 14, 2015
14Oct15_DU داعشal-Arabia

شام میں القاعدہ سے وابستہ باغی جنگجو گروپ النصرۃ محاذ کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے صدر بشارالاسد اور لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کے سروں کے قیمت مقرر کردی ہے۔ابومحمد الجولانی کی سوموار کی شب ایک آڈیو ٹیپ جاری کی گئی تھی۔اس میں انھوں نے کہا ہے کہ ”جو کوئی بھی بشارالاسد کو قتل کرے گا اور ان کی کہانی کا خاتمہ کرے گا،وہ اس کو تیس لاکھ یورو (چونتیس کروڑ ڈالرز) انعام کے طور پر دیں گے”۔

انھوں نے سوال کیا کہ ”مسلمان کب تک اقتدار کے حریص ایک شخص کے لیے اپنے حقوق سے محروم رہیں گے اور اپنا خون بہاتے رہیں گے۔انھوں نے اس آڈیو میں یہ بھی پیش کش کی ہے کہ ”اگر اسد خاندان کا کوئی فرد شامی صدر کی زندگی کا خاتمہ کردیتا ہے،تو النصرۃ محاذ اس کا اور اس کے خاندان کا تحفظ کرے گا”۔ابو محمد الجولانی نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو قتل کرنے والے کے لیے بیس لاکھ یورو (بائیس لاکھ ڈالرز) انعام مقرر کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر ان کے خاندان یا فرقے ہی کا کوئی فرد یہ کام کرتا ہے تو اس کو بھی اس انعام سے نوازا جائے گا۔اس آڈیو پیغام میں القاعدہ سے وابستہ گروپ کے سربراہ نے بشارالاسد کے اقلیتی علوی فرقے کے افراد پر انتقامی حملوں میں تیزی لانے کی ضرورت پر زوردیا ہے اور کہا ہے کہ روسیوں کی حالیہ فوجی مداخلت کے بعد سنی مسلمانوں کا بلا امتیاز قتل کیا جارہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ روس نے بشارالاسد کے اقتدار کو بچانے کے لیے فوجی مداخلت کی ہے لیکن وہ اپنے اس مقصد میں ناکام رہے گا کیونکہ اس سے پہلے ایران اور حزب اللہ کی جنگی امداد ان کی حکومت کو بچانے میں ناکام ہوچکی ہے۔الجولانی نے کہا:”اب اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہ گیا کہ جنگ میں تیزی لائی جائے اور اللاذقیہ میں علویوں کے قصبوں اور دیہات کو حملوں میں نشانہ بنایا جائے۔میں تمام دھڑوں سے کہتا ہوں کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر ان دیہات پر سیکڑوں میزائل فائر کریں بالکل ایسے جس طرح سنیوں کے شہروں اور دیہات کو حملوں میں نشانہ بنایا جارہا ہے”۔انھوں نے روس کی مداخلت کو مشرق سے نئی مسیحی صلیبی یلغار قراردیا ہے جو ان کے بہ قول ناکامی سے دوچار ہوگی۔انھوں نے کہا:”شام میں جنگ روسیوں کو ان ہولناکیوں کو بھلا دے گی،جن کا انھوں نے افغانستان میں سامنا کیا تھا۔روس کی نئی مداخلت مسلمانوں اور شام کے دشمنوں کے ہتھیاروں کی آخری چال ہے”۔

روس نے 30 ستمبر کو شام میں باغی جنگجو گروپوں کے خلاف فضائی حملوں کا آغاز کیا تھا اور اس نے حالیہ دنوں میں شام میں باغی گروپوں کے زیر قبضہ علاقوں پر فضائی حملے تیز کردیے ہیں۔روسی حکام کا کہنا ہے کہ ان کے لڑاکا طیارے شام میں داعش کے اہداف پر بمباری کررہے ہیں۔لیکن روسی فضائیہ کے بیشتر حملوں کا ہدف صدر بشارالاسد کی وفادار فوج سے لڑنے والے باغی جنگجو گروپ بنے ہیں۔ان میں النصرۃ محاذ بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ روسی طیارے عرب ممالک ،ترکی اور امریکا کے حمایت یافتہ باغی گروپوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔باغیوں کا کہنا ہے کہ روس ”زمین کو پاک کرو” پالیسی کے تحت شام میں عام شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور ان حملوں میں بیسیوں شہری ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ آزاد ذرائع سے روسی فضائی بمباری سے ہونے والی ہلاکتوں کے اعداد وشمار بھی سامنے نہیں آرہے ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردوں کی حقیقی شناخت کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

(25 May, 2015)
25May15_SH دہشتگرد01SH_Orig

بعض جماعتیں اور یوتھ آرگنائیزیشن یا تو دماغی طور پر مفلوج ہو چکے ہیں یا قلبی طور پر سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور طالبان کے تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کے حامی ہیں۔ ان عقل کے اندھوں کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ ایک ہی تکفیری دیوبندی خارجی دہشتگرد گروہ مختلف تنظیموں کے ناموں کے لبادوں سے مختلف طبقوں اور لوگوں کو مختلف وجوہات کی بناء پر قتل کر رہا ہے
25May15_SH دہشتگرد03
فوج اور سیکیورٹی فورسز کو یہ تکفیری دیوبندی گروہ اس لیئے قتل کرتا ہے کیوں کہ ان کے خیال میں فوج امریکی غلام ہونے کی وجہ سے ناپاک اور مرتد ہے اور ان کے خیالی اسلام اورمتشدد خلافت کی راہ میں رکاوٹ شیعہ مسلمانوں کو یہ تکفیری دیوبندی گروہ اس لیئے قتل کرتا ہے کیوں کی ان تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کی نظر میں شیعہ اسلام سے خارج ہیں
25May15_SH دہشتگرد02
بریلوی سنیوں اور صوفیوں کو یہ تکفیری دیوبندی دہشتگرد گروہ اس وجہ سے قتل کرتا ہے کیوں کہ بریلوی اور صوفی سنی اس تکفیری گروہ کے خیال میں مشرک و بدعتی ہیں احمدیوں کو یہ تکفیری دیوبندی گروہ اس لیئے قتل کرتا ہے کیوں کہ اس کے خیال میں احمدی ختم نبوت کے منکر ہونے کی وجہ سے مرتد اور واجب القتل ہیں
25May15_SH دہشتگرد04
پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے بچوں کا قتل عام اس لیئے کرتا ہے کیوں کہ اس کے خیال میں وہ فوجی جوانوں کی اولادیں تھیں اور دشمن کی اولاد کا قتل ان کی نظر میں جائز ہے مسیحی برادری کو یہ تکفیری دیوبندی گروہ اس لیئے مارتا ہے کیوں کہ یہ جاہل گروہ امریکی انتظامیہ اور پاکستانی مسیحیوں میں فرق ہی نہیں کر سکتا، ان کے خیال میں امریکہ کا مطلب عیسائی ہیں معتدل دیوبندیوں کو بھی یہ گروہ اس لیئے نشانہ بناتا ہے کیوں کہ وہ ان کے انتہا پسندانہ خیالات کی حمایت نہیں کرتے اور شیعہ مسلمانوں اور بریلوی سنیوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور نماز پڑھتے ہیں
25May15_SH دہشتگرد05
اس لیئے یہ بات تو صحیح ہے کہ اس تکفیری دیوبندی دہشتگرد گروہ، جس کو ہم کالعدم اہل سنت والجماعت، انجمن سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، جند ﷲ، تحریک طالبان، داعش یا القاعدہ وغیرہ کے مختلف ناموں سے پاکستان میں جانتے ہیں، کا نشانہ تمام پاکستانی ہیں لیکن یہ بات بھی اتنی ہی صحیح اور درست ہے کہ اس گروہ کے نزدیک شیعہ مسلمانوں کے قتل عام اور نسل کشی کی وجوہات اور فوجیوں کے قتل کی وجوہات میں فرق ہے۔
22May15_DU قاتل02
شیعہ مسلمان کو یہ تکفیری دیوبندی دہشتگرد اس کے عقیدے، نظریئے اور مسلک کی وجہ سے قتل کرنا جائز اور مباح سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کا قتل کرتے ہیں نہ کہ پاکستانی ہونے کی وجہ سے۔ اس لیئے بعض جماعتیوں اور یوتھیاؤں کا یہ کہنا کہ یہ نہیں کہا جائے کہ پاکستان میں یہ تکفیری دیوبندی دہشتگرد اقلیتی گروہوں کا قتل عام کر رہے ہیں بالکل ایک بے سر و پا مطالبہ ہے بلکہ در حقیقت ان تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کے جرائم اور ان کے مقاصد پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش ہے

حزب اللہ کا النصرہ فرنٹ کو نشانہ بنانے کا اعلان

Hasan Nasrullah, Hizb UllahUT_Or

بیروت: لبنانی عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کے قائد حسن نصر اللہ کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم کے جنگجو شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف برسرِپیکار النصرہ فرنٹ کو نشانہ بنائیں گے۔ حسن نصر اللہ کے مطابق حزب اللہ ان سنّی جنگجوؤں پر قالعمون کے سرحدی علاقے میں حملے کرے گی تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ کارروائیاں کب کی جائیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ شام کی مسلح باغی قوتیں جو کہ سرحد پار لبنان میں حزب اللہ کو بھی وقتاً فوقتاً نشانہ بناتی رہی ہیں، ایک ‘ناقابلِ قبول خطرہ’ ہیں۔ حزب اللہ شام کی موجودہ حکومت کی حامی ہے اور وہاں جاری خانہ جنگی میں اس کے سینکڑوں جنگجو صدر بشار الاسد کی حامی افواج کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔ حسن نصر اللہ نے قالعمون کے جس علاقے میں حملے کرنے کا اعلان کیا ہے وہ شام اور لبنان کی سرحد پر واقع ہے اور وہاں سرحد کی نگرانی کا موثر نظام موجود نہیں ہے۔ اپنے خطاب میں حسن نصر اللہ نے کہا کہ سرحد پار سے القاعدہ سے منسلک النصرہ فرنٹ کے شدت پسندوں کے حملوں نے لبنان کی سکیورٹی کے لیے ایک ناقابلِ قبول خطرہ پیدا کر دیا ہے جس کا ‘فوری علاج’ ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘(لبنانی) حکومت اس معاملے سے نمٹنے کے قابل نہیں اس لیے ہم ضروری کارروائی کریں گے اور اس عمل کی ذمہ داری اور نتائج قبول کریں گے’۔ انھوں نے اس بارے میں کوئی اشارہ نہیں دیا کہ حزب اللہ یہ کارروائی کب شروع کرے گی تاہم ان کا یہ ضرور کہنا تھا کہ ‘جب بھی ہم کارروائی کا آغاز کریں گے ہم کوئی بیان جاری نہیں کریں گے بلکہ کارروائی خود اس کا منہ بولتا ثبوت ہو گی –

شام: 300 کرد مردوں کی اغوا کے بعد رہائی

07Apr15_AA کرد01AA_Orig

النصرۃ محاذ نے ایک روز زیر حراست رکھنے کے بعد رہا کر دیا
شام میں القاعدہ سے وابستہ باغی جنگجو گروپ النصرۃ محاذ نے شمال مغربی صوبے ادلب میں قریباً تین سو کرد مردوں کو اغوا کے ایک روز بعد رہا کرا دیا ہے۔
یورپ میں کرد جمہوری پارٹی (پی وائی ڈی) کے ترجمان نواف خلیل نے برطانوی خبررساں ادارے رائیٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اسلامی جنگجو گروپ نے اغوا کیے گئے مردوں کو چھوڑ دیا ہے۔
برطانیہ میں قائم شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق نے بھی ان کردوں کی رہائی کی اطلاع دی ہے۔تاہم اس کا کہنا ہے کہ قریباً دو سو افراد کو گذشتہ دو روز سے مختلف چیک پوائنٹس پر زیر حراست رکھا گیا تھا۔
قبل ازیں نواف خلیل اور کوبانی سے تعلق رکھنے والے ایک اور کرد عہدے دار ادریس نسان نے صحافیوں کو سوموار کو بتایا تھا کہ ان افراد کو اتوار کی رات اغوا کرلیا گیا تھا۔اس وقت وہ کردوں کے زیر قبضہ قصبے عفرین سے شمالی شہر حلب اور دارالحکومت دمشق جانے کے لیے بسوں پر سفر کررہے تھے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ النصرۃ محاذ کے جنگجو خواتین اور بچوں کو چھوڑ گئے تھے لیکن مردوں اور نوجوانوں کو اغوا کرکے ساتھ لے گئے تھے۔ادریس نسان کے بہ قول انھوں نے انھیں حلب سے بیس کلومیٹر مغرب میں واقع گاؤں تقاد سے پکڑا تھا اور پھر انھیں صوبہ ادلب میں واقع قصبے الدانا منتقل کردیا تھا۔
النصرۃ محاذ نے ان کرد افراد کو اغوا کرنے کا دعویٰ نہیں کیا تھا اور شام کے سرکاری میڈیا نے بھی اس واقعہ کو رپورٹ نہیں کیا تھا۔شامی آبزرویٹری نے کرد مردوں کے اغوا کی تصدیق کی تھی لیکن اس کا کہنا تھا ان کی حتمی تعداد کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے۔
واضح رہے کہ شام میں گذشتہ چار سال سے جاری خانہ جنگی کے دوران کرد ملیشیا اور اسلامی جنگجوؤں کے درمیان مختلف محاذوں پر متعدد مرتبہ خونریز لڑائیاں ہوچکی ہیں۔ماضی قریب میں داعش اور کردوں کے درمیان شام کے ترکی کی سرحد کے نزدیک واقع شہر کوبانی میں خونریز لڑائی ہوئی تھی اور اس کے نتیجے میں داعش کو وہاں سے پسپا ہونا پڑا تھا۔شام کے بعض سخت گیر اسلامی جنگجو گروپ کردوں کو گم راہ خیال کرتے ہیں۔

دمشق: یرموک کیمپ میں جھڑپیں، مکینوں کا فرار

07Apr15_AAیرموک01AA_Orig

کیمپ پر چڑھائی پرحماس کی داعش سے انتقام لینے کی دھمکی
شام کے دارالحکومت دمشق کے نواح میں واقع فلسطینی مہاجرین کے کیمپ الیرموک پر اسدی فوج کی گولہ باری اور داعش اور فلسطینی جنگجوؤں کے درمیان جھڑپوں کے بعد سیکڑوں مکین وہاں سے محفوظ مقامات کی جانب چلے گئے ہیں۔دمشق کے جنوب میں واقع علاقے سے رہنے والے حاتم الدمشقی نامی ایک کارکن نے بتایا ہے کہ یرموک کیمپ میں اتوار کو آدھی رات کے وقت لڑائی چھڑ جانے کے بعد مکینوں نے بھاگنا شروع کردیا تھا۔کیمپ پر شامی فوج نے بھی شدید گولہ باری کی ہے اور فضائی حملے کیے ہیں۔حاتم الدمشقی اور برطانیہ میں قائم شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق نے بتایا ہے کہ کیمپ سے راہ فرار اختیار کرنے والے دمشق کے جنوب میں واقع نواحی علاقوں یلدہ ،بابلہ ،بیت صحم کی جانب چلے گئے ہیں اور یہ علاقے باغیوں کے کنٹرول میں ہیں۔انھوں نے شام کے سرکاری ٹیلی ویژن کے حوالے سے بتایا ہے کہ کیمپ سے قریباً دو ہزار افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور وہ اس وقت مذکورہ علاقوں میں اسکولوں یا پھر خالی مکانوں میں عارضی طور پر مقیم ہیں۔داعش کے جنگجوؤں نے گذشتہ بدھ کو یرموک کیمپ پر دھاوا بولا تھا۔فلسطینی حکام اور شامی کارکنان کا کہنا ہے کہ داعش اور القاعدہ سے وابستہ النصرۃ محاذ کے جنگجوؤں نے مل کر فلسطینی کیمپ پر حملہ کیا تھا حالانکہ ان دونوں گروپوں کے درمیان ماضی میں شام کے دوسرے علاقوں میں خونریز جھڑپیں ہوچکی ہیں لیکن یہاں وہ ایک دوسرے سے تعاون کررہے ہیں۔ آبزرویٹری کے مطابق یرموک کیمپ میں لڑائی چھڑنے کے بعد سے چھبیس افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
تاہم النصرۃ محاذ نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ لڑائی میں شریک نہیں ہے اور اس نے غیر جانبدارانہ موقف اختیار کررکھا ہے۔اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ النصرۃ نے اپنے دفاتر کھول دیے ہیں اور جو لوگ لڑائی میں شریک نہیں ہونا چاہتے ہیں،انھیں خوش آمدید کہا جارہا ہے اور پناہ دی جاری ہے۔
فلسطینی ردعمل
درایں اثناء فلسطینی صدر محمود عباس نے مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں ایک بیان میں کہا ہے کہ ”یرموک کے مکینوں کو شام میں جاری خانہ جنگی کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔وہاں سرکاری فوج اور مختلف باغی گروپوں کے درمیان جھڑپیں ہورہی ہیں اور اس کی قیمت ہم چُکا رہے ہیں”۔انھوں نے بتایا کہ ”دمشق میں موجود تنظیم آزادی فلسطین نے اس المیے سے نمٹنے کے لیے ایک سیل قائم کردیا ہے۔ہم وہاں اپنے لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ مسئلے کا کوئی حل تلاش کیا جاسکے اور ہم اپنے لوگوں کا تحفظ کرسکیں”۔ادھر غزہ میں حماس کے سیکڑوں حامیوں نے اتوار کی شام جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں داعش کے یرموک کیمپ پر قبضے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔حماس کے مقامی لیڈر محمد ابو عسکر نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”فلسطینی خون سستا نہیں ہے”۔انھوں نے داعش سے یرموک کیمپ پر حملے کا انتقام لینے کی دھمکی دی ہے۔دمشق میں قائم پاپولر فرنٹ برائے آزادی فلسطین جنرل کمان کے ترجمان انور رجا نے کہا ہے کہ اسد نواز متعدد دھڑے کیمپ کے دفاع کے لیے متحد ہیں۔انھوں نے بتایا ہے کہ داعش کے حملے کے بعد سے ایک سو افراد ہلاک ہوچکے ہیں یا داعش کے جنگجوؤں نے انھیں اغوا کر لیا ہے۔ترجمان کے بہ قول داعش کا کیمپ کے نصف حصے پر کنٹرول ہوچکا ہے اور اب ہماری ترجیح وہاں سے شہریوں کا انخلاء ہے۔اقوام متحدہ کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق اس وقت کیمپ میں قریباً اٹھارہ ہزار افراد مقیم ہیں اور ان میں بچوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔شامی فورسز نے گذشتہ دوسال سے اس کیمپ کا محاصرہ کررکھا ہے جس کی وجہ سے مکین بھوک اور بیماریوں کا شکار ہوچکے ہیں۔شام میں 2011ء میں خانہ جنگی کے آغاز کے وقت قریباً ایک لاکھ ساٹھ ہزار فلسطینی اس کیمپ میں مکین تھے لیکن وہ اسد نواز اور ان کے مخالف دھڑوں کے درمیان 2012ء میں خونریز جھڑپوں کے بعد لبنان میں قائم فلسطینی مہاجر کیمپوں یا دوسرے علاقوں کی جانب چلے گئے تھے اور صرف غریب غرباء ہی اس کیمپ میں رہ گئے تھے۔