شامی صدر بشارالاسد نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ روس کی فضائی مدد آنے کے بعد ان کے وفادار فوجی قریباً ہر محاذ پر پیش قدمی کررہے ہیں۔انھوں نے اتوار کے روز ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے فونیکس ٹیلی ویژن کے ساتھ انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ ماسکو میں نئے امن مذاکرات کی حمایت کریں گے لیکن انھوں نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ ” شامی تنازعہ ”دہشت گردی” کو شکست سے دوچار کیے بغیر حل نہیں ہوگا”۔بشارالاسد نے کہا کہ ”شام میں 30 ستمبر کو روس کے فضائی حملوں کے آغاز کے بعد صورت حال ”بڑے اچھے” طریقے سے بہتر ہوئی ہے اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ فوج قریبا ہر محاذ پر مختلف سمتوں سے پیش قدمی کررہی ہے”۔روس دمشق حکومت کے ساتھ روابط کے ذریعے شام کے مختلف علاقوں میں داعش اور دوسرے باغی گروپوں کے ٹھکانوں پر بمباری کررہا ہے جبکہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک از خود ہی شام کے پیشگی علم میں لائے بغیر داعش یا القاعدہ سے وابستہ جنگجو گروپ النصرۃ محاذ کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کررہے ہیں۔روس عالمی سفارتی محاذ پر بھی بشارالاسد کا سب سے بڑا پشتی بان ہے اور وہ ان کی اقتدار سے رخصتی کی بھی مخالفت کررہا ہے جبکہ دوسرے ممالک کا بنیادی مطالبہ ہی یہی ہے کہ شامی صدر بحران کے پُرامن حل کے لیے فوری طور پر اقتدار سے دستبردار ہوجائیں۔مگر بشارالاسد اقتدار چھوڑنا تو درکنار آیندہ صدارتی امیدوار بننے کو تیار بیٹھے ہیں اور انھوں نے اس انٹرویو میں اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”نئے انتخابات میں حصہ لینا میرا حق ہے۔البتہ اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ میں ان انتخابات میں حصہ لیتا بھی ہوں یا نہیں۔یہ فیصلہ اس امر منحصر ہوگا کہ شامی عوام کے بارے میں میرے کیا احساسات ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ وہ مجھے چاہتے ہیں یا نہیں”۔
ان کا کہنا تھا کہ ”آپ ایسی کسی چیز کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں جو آیندہ چند سال میں ہونے جارہی ہے”۔انھوں نے شامی حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ماسکو میں نئے امن مذاکرات کے انعقاد کی حمایت کا اظہار کیا ہے مگر ان کا بالاصرار کہنا ہے کہ ”دہشت گردی” کو شکست سے دوچار کرنے کے بعد ہی بحران کا کوئی سیاسی حل تلاش کیا جاسکتا ہے”۔شامی صدر کا کہنا تھا کہ ملک کا نیا آئین بنانے اور اس پر ریفرینڈم کے انعقاد میں زیادہ سے زیادہ دو سال کا عرصہ درکار ہوگا۔واضح رہے کہ بشارالاسد اور ان کی حکومت ان تمام باغی جنگجو گروہوں کو ”دہشت گرد” قرار دیتے ہیں جنھوں نے ان کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں۔
انھوں نے شامی حزب اختلاف کی حمایت کرنے والے مغربی اور دوسرے ممالک پر انتہاپسندی کی پشت پناہی کا الزام عاید کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ مغرب نے ایک شامی مہاجر بچے ایان کردی کی تصویر سے فائدہ اٹھایا ہے۔اس کو پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا ہے اور انھوں نے حزب اختلاف کے پشتی بانوں پر دہشت گردی کی مدد وحمایت کے ذریعے شامیوں کو بیرون ملک جانے پر مجبور کیا ہے۔صدر بشارالاسد نے کہا کہ ”یہ بچہ اور دوسرے بچے اس خطے اور دنیا بھر میں مغرب کی پالیسیوں کی وجہ سے مارے جارہے ہیں اور مصائب جھیل رہے ہیں”۔