شام اور عراق کے وسیع وعریض علاقے پر قابض دولت اسلامی داعش اپنی خود ساختہ خلافت کی بقاء کے لیے جہاں طاقت کا بے جا استعمال کرتے ہوئے یرغمال بنائے گئے اپنے مخالفین کو نہایت سفاکیت سے قتل کررہی ہے وہیں صنف نازک کے ذریعے پوری دنیا کے نوجوانوں کو داعشی خلافت کا رُخ کرنے کے لیے سبزباغ دکھانے کا ایک نیا ڈھنگ اختیار کیا گیا ہے۔
غیرملکی خبر رساں اداروں کے مطابق حال ہی میں انٹرنیٹ پر قصیٰ محمود [فرضی نام] نامی ایک داعشی دوشیزہ نے اپنے بلاگ پر مہاجرہ کے شب و روز کے عنوان سے لکھنا شروع کیا۔ اقصیٰ نے جس انداز میں داعش کی وکالت شروع کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کام اسے ایک منظم منصوبے کے تحت سونپا گیا ہے۔ وہ اپنے بلاگ میں داعشی خلافت کے زیرکنٹرول علاقوں میں امن وامان، خوشحالی اور بنیادی شہری سہولیات کا کچھ اس انداز میں ذکر کرتی ہے جیسی سہولیات دنیا کے کسی ترقیاتی فلاحی ملک میں بھی ممکن نہیں ہیں۔ مثال کےطور پر وہ لکھتی ہے کہ ہم لوگ یہاں مکان کا کرایہ ادا نہیں کرتے کیونکہ ہمیں مفت رہائش میسر ہے۔ بجلی کے بل ادا نہیں کرتے اور نہ ہی پانی کا بل دینا پڑتا ہے۔ ہمیں ماہانہ بنیادوں پر خوراک مل جاتی ہے۔ اس میں تلی ہوئی اشیاء، ڈبوں میں بند خوراک، چاول اور انڈے سب ماری دہلیز پر مفت پہنچ جاتے ہیں۔
خیال رہے کہ فرضی نام اقصیٰ سے داعش کے ہاں شہرت پانے والی بیس سالہ دوشیزہ کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ نومبر 2013ء کو گلاسکو سے شام روانہ ہوئی تھی۔ وہ امریکا کے ان 550 غیرملکی خواتین میں شامل ہے جو شام میں داعش اور اس جیسے دوسرے گروپوں میں شامل ہوچکی ہیں۔
داعش کا نوجوانوں کو خیالی جنت کا خواب
مڈل ایسٹ کارنیکی ریسرچ سینٹر کی خاتون ڈائریکٹر لینا الخطیب نے بیروت میں عالمی خبررساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ داعش نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے ایک خیالی جنت کی فروخت کا وعدہ کرتے ہیں۔ جو ان کے تئیں تو مثالی ہی ہوتی ہے مگر ریاست کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ داعشی یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ان کی خلافت دنیا کی واحد مملکت ہے جہاں آپ کے لیے آنا جانا کوئی مشکل نہیں اور بغیر ویزے اور پاسپورٹ کے آپ سفر کرتے ہیں۔ اس ریاست میں پہنچ جانے کے بعد ہر شخص اہم ہوجاتا ہے لیکن ساتھ ہی ہر شخص اپنی الگ سے شناخت بھی کھوہ دیتا ہے۔
داعشی دوشیزہ اقصیٰ کا کہنا ہے کہ داعش میں شامل ہونے والے نوجوانوں کوعلاج کی مفت سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ بچوں کی کفالت کی ذمہ داری داعش پر ہے جو باقاعدہ فیملی الائونسز دیتی ہے۔ اس کا مزید کہنا ہے کہ خواتین پرپابندیوں کے بارے میں داعش کے حوالے سے عالمی تاثر غلط ہے۔ داعش نے خواتین کو گھروں میں بند نہیں کیا بلکہ ان کے لیے تدریس، طب اور نرسنگ میں خدمات انجام دینے کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ جو خواتین ان شعبوں میں کام نہیں کررہی ہیں وہ دعوت و تبلیغ میں مصروف ہیں اور داعش کے لیے نوجوانوں کو بھرتی کرتی ہیں۔ دفاتر میں خواتین کے لیے الگ سے کمرہ مختص ہوتا ہے جہاں وہ آزادانہ کام کرتی ہیں۔
شادی سے قبل لڑکی اور لڑکے کو ایک دوسرے کو ایک نظر دیکھنے کی اجازت ہے۔ خواتین اپنا مہر خود مقرر کرتی ہیں۔ عموما ان کا مہر زیورات یا سونا چاندی نہیں بلکہ کلاشنکوف ہوتی ہے۔ شادی کے موقع پر آتش بازی کی اجازت نہیں بلکہ نعرہ تکبیر کے ساتھ ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے۔ نوبیاہتا جوڑے ہنی مون منانے کے لیے دریائے فرات کے کنارے سیر کرتے ہیں جہاں انہیں ہر ممکن سہولت اورآسائش فراہم کی جاتی ہے۔
اقصیٰ نے اپنے بلاگ میں ایک سفید نقاب پوش دوشیزہ کی ایک باریش نوجوان کے ہمراہ لی گئی تصویر پوسٹ کی ہے جس کے نیچے لکھا ہے کہ دونوں میاں بیوی ہیں مگرشہادت نے دونوں کے درمیان جدائی ڈال دی۔
داعش کے زیرانتظام آن لائن شائع ہونے والے انگریزی جریدہ دابق میں بھی دنیا بھر کے نوجوانوں کو اسی خیال ریاست کی طرف سفر کی مختلف طریقوں سے ترغیبات پیش کی جاتی ہیں۔ داعش کی جانب سے نوجوانوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ مالی مسائل کے حوالے سے فکر مند نہ ہوں۔
اُنہیں رہائش، خوراک اور خاندان کی تمام ضروریات مفت فراہم کی جائیں گی۔
پچھلے سال اگست میں داعش کے ترجمان دابق کا خصوصی شمارہ شائع کیا گیا جس میں داعشی خلیفہ ابو بکر البغدادی کی جانب سے دنیا بھر سے نوجوانوں بالخصوص پیشہ ور افراد کو داعش میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جج صاحبان، انجینیر، فوجی، انتظامیہ امور کے ماہرین اور ڈاکٹرز داعش کی خلافت کا رخ کریں جہاں ان کے لیے ہر طرح کے مواقع موجود ہیں۔