Category: Resignation

ایم کیو ایم کا اسمبلیوں سے استعفے واپس لینے کا اعلان

October 10, 2015
الطاف حسین متحدہBBC

حزب مخالف کی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفے واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔

اس بات کا اعلان ایم کیو کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے جمعے کے روز وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ معاہدہ طے پانے کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔

استعفے سیاسی بنیاد پر تھے یا نہیں، اس میں تحقیق لازم ہے
کچھ کارکن انڈیا ضرور گئے لیکن اس سے ہمارا کوئی لین دین نہیں
ایم کیو ایم کے سیکرٹیریٹ کے مطابق اُن کی جماعت آئندہ ہفتے سے مرحلہ وار استعفے واپس لے لے گی۔واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی میں جاری آپریشن کے دوران مبینہ طور پر اُن کے کارکنوں کو اغوا اور ماورائے عدالت قتل کرنے کے خلاف 12 اگست کو سینیٹ، قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی سے استعفے دے دیے تھے۔چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے ایم کیو ایم کے آٹھ سینیٹر کے استعفی قبول نہیں کیے اور اس میں اُنھوں نے رولنگ دی کہ چونکہ یہ استعفے احتجاج میں دیے گئے ہیں اس لیے اُنھیں قبول نہیں کیا جائے گا۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ کراچی آپریشن کےدوران ایم کیو ایم یا کسی بھی جماعت کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے جو 90 روز میں کسی بھی جماعت یا فرد کے تحفظات کو دور کرے گی۔اُنھوں نے کہا کہ اگلے پانچ روز میں اس کمیٹی کے ارکان کے ناموں کا اعلان کر دیا جائے گا جبکہ سیکرٹری داخلہ اس کمیٹی میں شامل ہوں گے۔وزیر خزانہ نے یہ نہیں بتایا کہ اس کمیٹی کے قیام سے متعلق سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو اعتماد میں لیا گیا ہے یا نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی رینجرز کی طرف سے اختیارات سے تجاوز کرنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ حکومتی کمیٹی کے ساتھ الطاف حسین کی تقاریر پر پابندی اُٹھانے اور ایم کیو ایم کے فلاحی اداروں پر پابندی اُٹھانے کے بارے میں بھی بات چیت ہوتی رہے گی۔ایک سوال کے جواب میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کرنے کی کوئی بھی تجویز ابھی تک زیر غور نہیں ہے۔

ایم کیو ایم کا حکومت سے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان

03 September, 2015
03Sep15_BBC متحدہBBC

متحدہ قومی موومنٹ نے حکومت کے ساتھ قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ سے استعفوں کی واپسی کے معاملے پر ہونے والے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ان کے استعفے فی الفور قبول کیے جائیں۔
جمعرات کی علی الصبح اسلام آباد میں ایم کیو ایم کی مذاکراتی ٹیم کے ارکان نے پریس کانفرنس کے ذریعے حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فاروق ستار کا کہنا تھا کہ گذشتہ رات حکومت کی مذاکراتی ٹیم اور ایم کیو ایم کی مذاکراتی ٹیم کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور ہوا جس نے بعد ایم کیو ایم کی لندن اور کراچی میں رابطہ کمیٹیوں اور مذاکراتی ٹیم درمیان طویل مشاورت کے بعد وہ نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حکومت ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا رویہ غیر سنجیدہ ہے اس لیے مذاکراتی عمل جاری رکھنا بے سود ہے۔ اس لیے ایم کیو ایم کی قیادت نے حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔خیال رہے کہ ایم کیو ایم کی مذاکراتی ٹیم میں فاروق ستار کے علاوہ وسیم اختر، شبیر قائم خانی، محمد علی سیف اور خواجہ سہیل منصور شامل تھے۔

فاروق ستار کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں ایم کیو ایم کے 150 سے زائد ارکان کی گمشدگی اور 45 ارکان کے ماروائے عدالت قتل کے معاملات کے علاوہ ایم کیو ایم کے سیاسی اور فلاحی دفاتروں کو دوبارہ کھولنے کے معاملات سامنے رکھے گئے تھے تاہم 20 دن گزرنے کے باوجود بھی ان معاملات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
03Sep15_BBC 02 متحدہ
ان کا کہنا تھا کہ ایسے حالات پیدا کیے جارہے ہیں جس میں ایم کیو ایم کا میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے۔کراچی آپریشن میں ایم کیو ایم سیاسی طور پر انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ایم کیو ایم کی سیاسی و فلاحی سرگرمیوں پر غیر اعلانیہ پابندی ہے۔فاروق ستار نے مطالبہ کیا کہ ایم کیو ایم کی سیاسی اور سماجی سرگرمیاں محدود نہ کی جائیں اور کراچی میں ان کی بند دفاتر دوبارہ کھولنے کی اجازت دی جائے۔انھوں نے مطالبہ کیا کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی ٹی وی پر براہ راست یا ریکارڈ شدہ تقاریر نشر کرنے پر غیر اعلانیہ عائد پابندی بھی ختم کی جائے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے مطالبات پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا اس لیے ایم کیو ایم کی قیادت نے مذاکراتی عمل سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ جب ایم کیو ایم کا سیاسی کردار ہی ختم کیا جا رہا ہے تو اسمبلیوں میں جا کر کیا کریں گے لہٰذا ان کے استعفے فی الفور قبول کیے جائیں۔واضح رہے کہ ایم کیو ایم کے ارکانِ پارلیمان کراچی میں جاری آپریشن پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے 12 اگست کو مستعفی ہوگئے تھے۔

الیکشن کمیشن اراکین کا مستعفی نہ ہونے کا فیصلہ

01 September, 2015
1Sep15_DU کمیشن01DU

اسلام آباد : الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے اراکین نے اپوزیشن جماعتوں کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے مستعفی نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ معاملہ اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے دفتر میں ہونے والے ایک اجلاس میں زیربحث آیا۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سپریم جوڈیشل کونسل میں آئین پاکستان کی شق 209 کے تحت ایک ریفرنس الیکشن کمیشن کے اراکین کے خلاف دائر کیا ہے۔پی ٹی آئی کے ریفرنس کو دیکھتے ہوئے ای سی پی کے اراکین نے اپوزیشن کے مطالبے پر کوئی فیصلہ نہ کرنے اور مجاز اتھارٹی کے کسی فیصلے تک انتظار کا فیصلہ کیا۔گزشتہ ہفتے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ الیکشن کمیشن کے اراکین نے استعفے نہ دیئے تو چار اکتوبر کو اسلام آباد میں ای سی پی کے دفتر کے سامنے دھرنا دیا جائے گا۔لاہور میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران ان کا کہنا تھا کہ اکیس سیاسی جماعتوں کی جانب سے 2013 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے دعوﺅں کے بعد ای سی پی اراکین کا اپنے عہدوں پر رہنا جواز نہیں رکھتا۔اس سے قبل اگست میں ہی ایک پریس کانفرنس کے دوران عمران خان نے کہا تھا کہ ای سی پی کے صوبائی حکام کے پاس کوئی قانونی یا اخلاقی جواز نہیں رہا اور انہیں فوری طور پر مستعفی ہوجانا چاہئے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عام انتخابات میں دھاندلی کو چھپانے کے حوالے سے نادرا کے چیئرمین کو بھی استعفی دینا چاہئے۔