پیغمبر اسلام (ﷺ) نے آپ کا نام اللہ کے نام پر علی رکھا ۔ حضرت ابو طالب و فاطمہ بنت اسد نے پیغمبر اسلام (ﷺ) سے عرض کیا کہ ہم نے ہاتف غیبی سے یہی نام سنا تھا۔
حضرت علی (علیہ السّلام) کی مشہور کنیت ابو الحسن و ابو تراب ہیں
.
آپ کے والد ابو طالب بن عبد المطلب بن ہاشم ہیں اور ماں فاطمه بنت اسد بن ہاشم ہیں ۔ہاشمی خاندان قبیلہ قریش میں اور قریش تمام عربوں میں اخلاقی فضائل کے لحاظ سے مشہور و معروف تھے ۔جواں مردی ، دلیری ، شجاعت اور بہت سے فضائل بنی ہاشم سے مخصوص تھے اور یہ تمام فضائل حضرت علی (علیہ السلام) کی ذات مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھے ۔
جب حضرت علی (علیہ السلام) کی ولادت کا وقت قریب آیا تو فاطمه بنت اسد کعبه کے پاس ائیں اور اپنے جسم کو اس کی دیوار سے مس کر کے عرض کیا۔ پروردگارا ! میں تجھ پر، تیرےنبیوں پر، تیری طرف سے نازل شده کتابوں پر اور اس مکان کی تعمیر کرنے والے،اپنے جد ابراہیم (علیہ السلام) کے کلام پر راسخ ایمان رکھتی ہوں ۔پروردگارا ! تجھے اس ذات کے احترام کا واسطہ جس نے اس مکان مقدس کی تعمیر کی اور اس بچه کے حق کا واسطه جو میرے شکم میں موجود ہے، اس کی ولادت کومیرے لئے آسان فرما ۔
ابھی ایک لمحہ بھی نھیں گزرا تھا که کعبہ کی جنوبی مشرقی دیوار ، عباس بن عبد المطلب اور یزید بن تعف کی نظروں کے سامنے شگافته ہوئی، فاطمہ بنت اسد کعبہ میں داخل ہوئیں اور دیوار دوباره مل گئی ۔ فاطمه بنت اسد تین دن تک روئے زمین کے اس سب سے مقدس مکان میں اللہ کی مھمان رہیں اور تیره رجب سن ۳۰ عام الفیل کو بچہ کی ولادت ہوئی ۔ ولادت کے بعد جب فاطمه بنت اسد نے کعبہ سے باہر آنا چاھا تو دیوار دو باره شگافتہ ہوئی، آپ کعبه سے باہر تشریف لائیں اور فرمایا :” میں نے غیب سے یہ پیغام سنا ہے که اس بچے کا نام” علی “ رکھنا ۔
حضرت علی (علیہ السلام) تین سال کی عمر تک آپنے والدین کے پاس رہے اور اس کے بعد پیغمبر اسلام (ﷺ) کے پاس آگئے۔ کیون کہ جب آپ تین سال کے تھےاس وقت مکہ میں بھت سخت قحط پڑا ۔جس کی وجہ سے رسول الله (ﷺ) کے چچا ابو طالب کو اقتصادی مشکل کابہت سخت سامنا کرنا پڑا ۔
رسول الله (ﷺ) نے آپنے دوسرے چچا عباس سے مشوره کرنے کے بعد یہ طے کیا کہ ہم میں سے ہر ایک، ابو طالب کے ایک ایک بچے کی کفالت آپنے ذمہ لے لے تاکہ ان کی مشکل آسان ہو جائے ۔ اس طرح عباس نے جعفر
اور رسول الله (ﷺ) نے علی (علیہ السلام) کی کفالت آپنے ذمہ لے لی ۔
حضرت علی (علیہ السلام) پوری طرح سے پیغمبر اکرم (ﷺ) کی کفالت میں آگئے اور حضرت علی (علیہ السلام) کی پرورش براهِ راست حضرت محمد مصطفےٰ کے زیر نظر ہونے لگی ۔ آپ نے انتہائی محبت اور توجہ سے آپنا پورا وقت، اس چھوٹے بھائی کی علمی اورا خلاقی تربیت میں صرف کیا. کچھ تو حضرت علی (علیہ السلام) کے ذاتی جوہر اور پھراس پر رسول جیسے بلند مرتبہ مربیّ کافیض تربیت ، چنانچہ علی علیہ السّلام دس برس کے سن میں ہی اتنی بلندی پر پہنچ گئے کہ جب پیغمبر اسلام (ﷺ) نے رسالت کا دعوی ک یا، تو آپ نے ان کی تصدیق فرمائ ۔ آپ ھمیشه رسول الله (ﷺ) کے ساتھ رھتے تھے، یہاں تک کہ جب پیغمبر اکرم (ﷺ) شھر سے باھر، کوه و بیابان کی طرف جاتے تھے تو آپ کو آپنے ساتھ لے جاتے تھے ۔
اس دوران پیغمبراکرم (ﷺ) کی الہٰی دعوت کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے والے تنہا حضرت علی (علیہ السلام) تھے۔ جب رسول الله (ﷺ) نے اپنے اعزاء و اقرباء کے درمیان اسلام کی تبلیغ کے لئے انہیں دعوت دی تو آپ کے ہمدرد و ہمدم، تنھا حضرت علی (علیہ السلام) تھے ۔اس دعوت میں پیغمبر خدا (ﷺ) نےحاضرین سے سوال کیا کہ آپ میں سے کون ہے جو اس راه میں میری مدد کرے اور آپ کے درمیان میرا بھائی، وصی اور جانشین ہو؟ اس سوال کا جواب فقط حضرت علی (علیہ السلام) نے دیا :” اے پیغمبر خدا ! میں اس راه میں آپ کی نصرت کروں گا ۔ پیغمبر اکرم (ﷺ) نے تین مرتبه اسی سوال کی تکرار اور تینوں مرتبہ حضرت علی (علیہ السلام) کا جواب سننے کے بعد فرمایا اے میرے خاندان والوں ! جان لو که علی میرا بھائی اور میرے بعد تمھارے درمیان میرا وصی و جانشین ہے ۔ علی (علیہ السلام) کے فضائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ (علیہ السلام) رسول الله (ﷺ) پر ایمان لانے والے سب سے پہلے شخص ہیں ۔
اس سلسلے میں ابن ابی الحدید لکھتے ہیں بزرگ علماء اور گروه معتزلہ کے متکلمین کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ علی بن ابی طالب (علیہ السلام) وه پہلے شخص ہیں جو پیغمبر اسلام پر ایمان لائے اور پیغمبر خدا (ﷺ) کی تصدیق کی ۔ رسول اسلام کی بعثت، زمانہ , ماحول, شہر اور آپنی قوم و خاندان کے خلاف ایک ایسی مہم تھی ، جس میں رسول کا ساتھ دینے والا کوئی نظر نہ آتا تھا ۔ بس ایک علی (علیہ السّلام) تھے کہ جب پیغمبر نے رسالت کا دعویٰ کیا تو انہوں نے سب سے پہلے ا ن کی تصدیق کی اور ان پر ایمان کااقرارکیا . دوسری ذات جناب خدیجة الکبریٰ کی تھی، جنھوں نے خواتین کے طبقہ میں سبقتِ اسلام ک ا شرف حاصل کیا۔ پیغمبر کادعوائے رسالت کرنا تھا کہ مکہ کا ہر آدمی رسول کادشمن نظر انے لگا . وہی لوگ جو کل تک آپ کی سچائی اورامانتداری کادم بھرتے تھے اج آپ کو ( معاذ الله ( دیوانہ، جادو گر اور نہ جانے کیا کیا کہنے لگے۔ اللہ کے رسول کے راستوں میں کانٹے بچھائے جاتے، انہیں پتھر مارے جاتے اور ان کے سر پر کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا.
اس مصیبت کے وقت میں رسول ک ے شریک صرفاور صرف حضرت علی (علیہ السلام) تھے، جو بھائی کاساتھ دینے میں کبھی بھی ہمت نہیں ہار تے تھے ۔ وہ ہمیشہ محبت ووفاداری کادم بھرتے رہےاور ہرموقع پر رسول کے سینہ سپر رہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت بھی ایا جب مخالف گروہ نے انتہائی سختی کے ساتھ یہ طے کرلیا کہ پیغمبر اور ان کے تمام گھر والوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ حالات اتنے خراب تھے کہ جانوں کے لالے پڑ گئے تھے .حضرت ابو طالب (علیہ السّلام) نے آپنے تمام ساتھیوں کو حضرت محمدمصطفےٰ سمیت ایک پہاڑ کے دامن میں محفوظ قلعہ میں بند کردیا۔ وہان پر تین برس تک قید وبند کی زندگی بسر کرنی پڑی . کیون کہ اس دوران ہر رات یہ خطرہ رہتا تھا کہ کہیں دشمن شب خون نہ مار دے .
اس لئے ابو طالب علیہ السّلام نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ وہ رات بھر رسول کو ایک بستر پر نہیں رہنے دیتے تھے، بلکہ ک بھی رسول کے بستر پر جعفر کو اور جعفر کے بستر پر رسول کو ک بھی عقیل کے بستر پر رسول کو اور رسول کے بستر پر عقیل کو ک بھی علی کے بستر پر رسول کو اور رسول کے بستر پر علی (علیہ السّلام) کو لٹا تے رہتے تھے. مطلب یہ تھا کہ اگر دشمن رسول کے بستر کا پتہ لگا کر حملہ کرنا چاہے تو میرا کوئ بیٹا قتل ہوجائے مگر رسول کا بال بیکانہ ہونے پائے . اس طرح علی (علیہ السّلام) بچپن سے ہی فدا کاری اور جان نثاری کے سبق کو عملی طور پر دہراتے رہے
شب ہجرت مشرک دشمنوں نے رسول الله (ﷺ) کے قتل کی سازش کی تو آپ (علیہ السلام) نے پوری شجاعت کے ساتھ رسول الله (ﷺ) کے بستر پر سو کر انکی سازش کو نا کام کر دیا۔
آنحضرت نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ اور ابو طالب (علیہ السّلام) کے وفات کے سال کو عام الحزن قرار دیا۔ ابو طالب کی تلوار نے اہل مکہ کو خاموش رکھا تھا۔ اس نے بعد کفار کی ریشہ دوانیاں بڑھ گئیں۔ پھر آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کاارادہ کرلیا ۔ دشمنوں نے یہ سازش رچی کہ ایک رات جمع ہو کر پیغمبر کے گھر کو گھیر لیں اور حضرت کو شہید کرڈالیں۔ جب حضرت کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے آپنے جاں نثار بھائی علی (علیہ السّلام) کو بلا کر اس سازش کے بارے میں اطلاع دی اور فرمایا کہ میری جان اس طرح بچ سکتی ہے اگر آج رات آپ میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کر سو جاؤ اور میں مخفی طور پر مکہ سے روانہ ہوجاؤں .
کوئی دوسرا ہوتاتو یہ پیغام سنتے ہی اس کا دل دہل جاتا، مگر علی (علیہ السّلام) نے یہ سن کر کہ میرے ذریعہ سے رسول کی جان کی حفاظت ہوگی، خدا کاشکر ادا کیا اور بہت خوش ہوئے کہ مجھے رسول کافدیہ قرار دیا جارہا ہے۔ یہی ہوا کہ رسالت مآب شب کے وقت مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے اور علی بن ابی طالب (علیہ السّلام) رسول کے بستر پر سوئے۔ چاروں طرف خون کے پیاسے دشمن تلواریں کھینچے نیزے لئے ہوئے مکان کوگھیرے ہوئے تھے .
بس اس بات کی دیر تھی کہ ذرا صبح ہو اور سب کے سب گھر میں داخل ہو کر رسالت ما ٓ ب کو شہید کر ڈالیں . علی (علیہ السّلام) اطمینان کے ساتھ بستر پرارام کرتے رہے اور اپنی جان کا ذرا بھی خیال نہ کیا۔ جب دشمنوں کو صبح کے وقت یہ معلوم ہوا کہ محمد نہیں ہیں تو انھوں نے آپ پر یہ دباؤ ڈالا کہ آپ بتلادیں کہ رسول کہا ںگئے ہیں؟ مگر علی (علیہ السّلام) نے بڑے بہادرانہ انداز میں یہ بتانے سے قطعی طور پر انکار کردیا . اس کا نتیجہ یہ ہواکہ رسول الله (ﷺ) مکہ سے کافی دور تک بغیر کسی پریشانی اور رکاوٹ کے تشریف لے جاسکیں.علی (علیہ السّلام) تین روز تک مکہ میں رہے . جن لوگوں کی امانتیں رسول الله کے پاس تھیں ان کے سپرد کر کےخواتین بیت رسالت کو آپنے ساتھ لے کرمدینہ کی طرف روانہ ہوئے .
آپ کئ روز تک رات دن پیدل چلے کر اس حالت میں رسول کے پاس پہنچے کہ آپ کے پیروں سے خون بہ رہا تھا. اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ علی علیہ السّلام پر رسول کو سب سے زیادہ اعتماد تھااور جس وفاداری , ہمت اور دلیری سے علی (علیہ السّلام) نے اس ذمہ داری کو پورا کیا ہے وہ بھی آپنی آپ میں ایک مثال ہے۔
http://tune.pk/video/3791996/zaman-zaki-taji-qawwal-ali-ke-sath-hai-zahra-ke-shadi
اس لئے ہر شخص رسول کی اس معزز بیٹی کے ساتھ منسوب ہونے کا شرف حاصل کرنے کی تمنا میں تھا. کچھ لو گوں نے ہمت کر کے رسول اللہ کو پیغام بھی دیا مگر حضرت نے سب کی خواہشوں کو رد کردیا اور فرمایا کہ فاطمہ کی شادی اللہ کے حکمِ بغیر نہیں ہوسکتی ۔ عمر و ابوبکر قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ سے مشوره کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ علی (علیہ السلام ) کے سوا کوئی بھی زھرا (سلام اللہ علیہا) کے ساتھ ازدواج کی لیاقت نھیں رکھتا۔
ایک دن جب حضرت علی (علیہ السلام ) انصار رسول (ﷺ) میں سے کسی کے باغ میں آبیاری کر رہے تھے تو انھوں نے اس موضوع کو آپ (علیہ السلام ) کے سامنے چھیڑا اور آپ نے فرمایا میں بھی دختر رسول (ﷺ) سے شادی کا خواہاں ہوں ، یہ کہہ کر آپ رسول الله (ﷺ) کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ جب رسول الله (ﷺ) کی خدمت میں پہنچے تو رسول الله (ﷺ) کی عظمت اس بات میں مانع ہوئی که آپ (علیہ السلام ) کچھ عرض کریں ۔
جب رسول الله (ﷺ) نے آنے کی وجہ دریافت کی تو حضرت علی (علیہ السلام ) نے اپنے فضائل، تقویٰ اور اسلام کے لئے آپنے سابقہ کارناموں کی بنیاد پرعرض کیا : ” آیا آپ فاطمه کو میرے عقد میں دینا بہتر سمجھتے ہیں ؟ حضرت زھرا (سلام اللہ علیہا) کی رضامندی کے بعد رسول الله (ﷺ) نے یہ رشتہ قبول کر لیا۔ ہجرت کا پہلا سال تھا کہ رسول نے علی (علیہ السّلام) کو اس عزت کے لئے منتخب کیا . یہ شادی نہایت سادگی کے ساتھ انجام دی گئ .
حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا مہر حضرت علی (علیہ السّلام) سے لے کر اسی سے کچھ گھر کا سامان خریدا گیا جسے جہیز طور پر دیا گیا۔ وہ سامان بھی کیاتھا ؟ کچھ مٹی کے برتن ، خرمے کی چھال کے تکیے، چمڑے کابستر، چرخہ، چکی اور پانی بھرنے کی مشک حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کا مہر ایک سو سترہ تولے چاندی قرار پایا، جسےحضرت علی علیہ السّلام نے آپنی زرہ فروخت کر کے ادا کیا
اسی لئے آپ کو کاتبان وحی اور حافظان قرآن میں شمار کیا جاتا ہے ۔
اس کے علاوہ تاریخی و سیاسی نوعیت کی اسناد کی تنظیم کرتے تھے۔ معاہدے وغیرہ آپ نے لکھے۔دعوت الٰہی کے تبلیغی خطوط لکھنا، باد شاہاں وقت سے مراسلت کی ذمہ داری بھی تھی۔
اور حضرت علی (علیہ السلام ) کو رسول الله (ﷺ) نے اپنا بھائ بنایا اور حضرت علی (علیہ السلام ) سے فرمایا تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ھو، اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ
مبعوث فرمایا ۔۔۔ میں تمھیں آپنی اخوت کے لئے انتخاب کرتا ہوں ،
ایک ایسی اخوت جو دونوں جھان میں بر قرار رہے ۔
کیوں کہ انھوں نے آپ کو پریشانی کے عالم میں پنا ہ دی تھی اور آپ کی نصرت و مداد کاوعدہ کیا تھا، لہذا آپ نے یہ کسی طرح پسند نہ کیا کہ آپ شہر کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ کریں اور دشمن کو مدینہ کی پر امن ابادی میں داخل ہونے اور عورتوں اور بچوں کو پریشان کرنے کا موقع دیں. آپ کے ساتھیوں تعداد بہت کم تھی۔ آپ کے
پاس کل تین سو تیرہ آدمی تھے اور مب کے پاس ہتھیار بھی نہیں تھے،
مگر آپ نے یہ طے کیا کہ ہم مدینے سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ چنانچہ یہ اسلام کی پہلی جنگ ہوئی جوآگے چل کر جنگِ بدر کے نام سے مشہور ہوئ ۔اس جنگ میں رسول اللہ (ﷺ) نے آپنے عزیزوں کو زیادہ آگے رکھا، جس کی وجہ سے آپ کے چچا زاد بھائی عبید ابن حارث ابن عبدالمطلب اس جنگ میں شہید ہوگئے . علی (علیہ السّلام) ابن ابی طالب کو جنگ کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ اس وقت ان کی عمر صرف ۲۵برس تھی مگر جنگ کی فتح کا سہرا (علی علیہ السّلام) کے سر ہی بندھا۔
جتنے مشرکین قتل ہوئے ان میں سے ادھےحضرت علی (علیہ السّلام) کے ہاتھ سے اور ادھے، باقی مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ اس کے بعد ،اُحد، خندق،خیبراور اخر میں حنین یہ وہ بڑی جنگیں تھیں جن میں حضرت علی (علیہ السّلام) نے رسول اللہ کے ساتھ رہ کر اپنی بہادری کے جوہر دکھا ئے۔ تقریباً ان تمام جنگوں میں علی (علیہ السّلام) کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا . اس کے علاوہ بہت سی جنگیں ایسی تھیں جن میں رسول نےحضرت علی (علیہ السّلام) کو تنہا بھیجا اورانھوں نے اکیلے ہی بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ فتح حاصل کی اور استقلال،تحمّل اور شرافت ُ نفس کا وہ مطاہرہ کیا کہاس کا اقرار خود ان کے دشمن کو بھی کرنا پڑا۔
جب خندق کی جنگ میں دشمن کے سب سے بڑے سورماعمر وبن عبدود کو آپ نے مغلوب کر لیا اور اس کاسر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پرسوار ہوئے تو اس نے آپ کے چہرے پر لعب دہن پھینک دیا۔ آپ کو غصہ اگیا اور آپ اس کے سینے سے اتر ا ٓئے . صرف اس خیال سے کہ اگراس غصّےکی حالت میں اس کو قتل کیا تو یہ عمل خواہش نفس کے مطابق ہوگا، خدا کی راہ میں نہ ہوگا۔ اسی لئے آپ نے اس کو کچھ دیر کے بعد قتل کیا۔ اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش کو برہنہ کردیتے تھے، مگر حضرت علی علیہ السّلام نے اس کی زرہ نہیں اُتاری جبکہ وہ بہت قیمتی تھی
چنانچہ جب عمرو کی بہن آپنے بھائی کی لاش پر ائی تو اس نے کہا کہاگر علی کے علاوہ کسی اور نے میرے بھائی کوقتل کیا ہوتا تو میں عمر بھر روتی، مگر مجھے یہ دیکھ کر صبر اگیا کہ اس کاقاتل شریف انسان ہے جس نے آپنے دشمن کی لاش کی توہین گوارا نہیں کی۔ آپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یابچّوں پر ہاتھ نہیں اٹھا یا اور نہ کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ کیا
پیغمبر اکرم (ﷺ) آپنی پر برکت زندگی کے آخری سال میں حج کا فریضہ انجام دینے کے بعد مکہ سےمدینے کی طرف پلٹ رہے تھے، جس وقت آپ کا قافلہ جحفه کے نزدیک غدیر خم نامی مقام پر پہنچا تو جبرئیل امین یہ آیہ بلغ لیکرنازل ہوئے، پیغمبر اسلام (ﷺ)نے قافلےکو ٹھرنے کا حکم دیا ۔
نماز ظہر کے بعد پیغمبر اکرم (ﷺ) اونٹوں کے کجاوں سے بنے منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا ” ایھا الناس ! وہ وقت قریب ہے که میں دعوت حق پر لبیک کہتے ہوئے تمھارے درمیان سے چلا جاؤں ،لہذا بتاو کہ میرے بارے میں تمہاری کیا رای ہے؟ سب نے کہا :” ھم گواہی دیتے ہیں آپ نے الٰھی آئین و قوانین کی بہترین طریقے سے تبلیغ کی ہے “ رسول الله (ﷺ) نے فرمایا ” کیا تم گواھی دیتے ہو کہ خدائے واحد کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نھیں ھے اور محمد خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہے “۔ پھر فرمایا: ” ایھا الناس ! مومنوں کے نزدیک خود ان سے بہتر اور سزا وار تر کون ہے ؟“۔ لوگوں نے جواب دیا :” خدا اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں “۔
پھر رسول الله (ﷺ) نے حضرت علی (علیہ السلام) کے ھاتھ کو پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا :” ایھا الناس ! من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں“ ۔ رسول الله (ﷺ) نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی ۔ اس کے بعد لوگوں نے علی (علیہ السلام) کواس منصب ولایت کے لئے مبارکباددی اور آپ ؑ کے ہاتھوں پر بیعت کی ۔
مرادی ، ومبرک بن عبد الله تمیمی اور عمر و بن بکر تمیمی ایک رات میں ایک جگہ جمع ہوئےاور نہروان میں مارے گئے اپنےساتھیوں کو یاد کیا کرتے ہوئے ان دنوں کے حالات اور داخلی جنگوں کے بارے میں تبادلہ خیال کرنےلگے۔ بالآخروہ اس نتیجہ پر پہنچے که اس قتل و غارت کی وجہ حضرت علی (ع) معاویہ اورعمرو عاص ہیں اور اگر ان تینوں افراد کو قتل کر دیا جائے تو مسلمان اپنے مسائل کوخود حل کر لیں گے۔
لہذا انھوں نے آپس میں طےکیا کہ ہم میں سے ہر ایک آدمی ان میں سے ایک ایک کو قتل کرے گا ۔ ابن ملجم نے حضرت علی (ع) کے قتل کا عہد کیا اور سن۴۰ ہجری قمری میں انیسویں رمضان المبارک کی شب کو کچھ لوگوں کے ساتھ مسجد کوفہ میں آکر بیٹھ گیا ۔ اس شب حضرت علی (ع) اپنی بیٹی کے گھر مہمان تھے اور صبح کو واقع ہونے والے حادثہ سے با خبر تھے۔ لہذا جب اس مسئلہ کو اپنی بیٹی کے سامنے بیان کیا تو ام کلثوم نے کہا کہ کل صبح آپ ۔۔۔کو مسجد میں بھیج دیجئے ۔ حضرت علی (ع) نے فرمایا : قضائے الٰہی سے فرار نہیں کیا جا سکتا۔ پھر آپنے کمر کے پٹکے کو کس کر باندھا اور اس شعر کو گنگناتےہوئے مسجد کی طرف روانہ ہوگئے ۔
” اپنی کمر کو موت کے لئے کس لو ، اس لئے کہ موت تم سے ملاقات کرے گی ۔ اور جب موت تمھاری تلاش میں آئے تو موت کے ڈر سے نالہ و فریاد نہ کرو “۔ حضرت علی (ع) سجده میں تھے کہ ابن ملجم نے آپ کے فرق مبارک پر تلوار کا وار کیا۔ آپ کے سر سے خون جاری ہواآپ کی داڑھی اور محراب خون سے رنگین ہو گئ۔ اس حالت میں حضرت علی (ع) نے فرمایا : ” فزت و رب الکعبه “ کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ھو گیا۔
پھر سوره طہ کی اس آیت کی تلاوت فرمائی ”ہم نے تم کو خاک سے پیدا کیا ھے اور اسی خاک میں واپس پلٹا دیں گے اور پھر اسی خاک تمھیں دوباره اٹھائیں گے “۔حضرت علی (ع) اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی لوگوں کی اصلاح و سعادت کی طرف متوجہ تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں، عزیزوں اور تمام مسلمانوں سے اس طرح وصیت فرمائی :
” میں تمہیں پرھیز گاری کی وصیت کرتا ہوں اور وصیت کرتا ہوں کہ تم اپنے تمام امور کو منظم کرو اور ہمیشه مسلمانوں کے درمیان اصلاح کی فکر کرتے رھو ۔ یتیموں کو فراموش نہ کرو ۔ پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کرو ۔ قرآن کو اپنا عملی نصاب قرار دو ،نماز کی بہت زیادہ قدر کرو، کیوں کہ یہ تمھارے دین کا ستون ہے “۔
آپ کے رحم وکرم اور مساوات پسندی کا عالم یہ تھا کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لا یا گیا، اورآپ نے دیکھا کہ اس کاچہرہ زرد ہے اور انکھوں سے انسو جاری ہیں، تو آپ کو اس پر بھی رحم اگیا۔ آپنے اپنے دونوں بیٹوں امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ ہمارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا، جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا، اگر میں صحتیاب ہو گیا تو مجھے اختیار ہے کہ چاہے اسے سزا دوں یا معاف کردوں اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور آپ نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگاناکیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے ۔ اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کرنا کیوں کہ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔
حضرت علی علیہ السّلام دو روز تک بستر بیماری پر کرب و بے چینی کے ساتھ کروٹیں بدلتے رہے۔ آخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور ۲۱رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی روح جسم سے پرواز کر گئ .حضرت امام حسن و امام حسین علیہما السّلام نے تجہیزو تکفین کے بعد آپ کے جسم اطہر کو نجف میں دفن کر دیا۔