Category: سوانح حیات، زندگینامہ،

میسر نہیں کسی کو یہ سعادت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت

01

حضرت علی علیہ السّلام
line
اسم گرامی
IA_068

پیغمبر اسلام (ﷺ) نے آپ کا نام اللہ کے نام پر علی رکھا ۔ حضرت ابو طالب و فاطمہ بنت اسد نے پیغمبر اسلام (ﷺ) سے عرض کیا کہ ہم نے ہاتف غیبی سے یہی نام سنا تھا۔

Ali_036

القاب و کنیت
آپ کے مشہور القاب امیر المومنین ، مرتضی، اسد اللہ، ید اللہ، نفس اللہ، حیدر، کرار، نفس رسول اور ساقی کوثر ہیں۔
02
حضرت علی (علیہ السّلام) کی مشہور کنیت ابو الحسن و ابو تراب ہیں
.
line
آباؤ اجداد
حضرت علی (علیہ السلام) ہاشمی خاندان کے وه پہلے فرزند ہیں جن کے والد اور و الده دونوں ہاشمی ہیں ۔
jannat Muala02
آپ کے والد ابو طالب بن عبد المطلب بن ہاشم ہیں اور ماں فاطمه بنت اسد بن ہاشم ہیں ۔ہاشمی خاندان قبیلہ قریش میں اور قریش تمام عربوں میں اخلاقی فضائل کے لحاظ سے مشہور و معروف تھے ۔جواں مردی ، دلیری ، شجاعت اور بہت سے فضائل بنی ہاشم سے مخصوص تھے اور یہ تمام فضائل حضرت علی (علیہ السلام) کی ذات مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھے ۔
line
ولادت
1IA_BP_000

جب حضرت علی (علیہ السلام) کی ولادت کا وقت قریب آیا تو فاطمه بنت اسد کعبه کے پاس ائیں اور اپنے جسم کو اس کی دیوار سے مس کر کے عرض کیا۔ پروردگارا ! میں تجھ پر، تیرےنبیوں پر، تیری طرف سے نازل شده کتابوں پر اور اس مکان کی تعمیر کرنے والے،اپنے جد ابراہیم (علیہ السلام) کے کلام پر راسخ ایمان رکھتی ہوں ۔پروردگارا ! تجھے اس ذات کے احترام کا واسطہ جس نے اس مکان مقدس کی تعمیر کی اور اس بچه کے حق کا واسطه جو میرے شکم میں موجود ہے، اس کی ولادت کومیرے لئے آسان فرما ۔
Ali
ابھی ایک لمحہ بھی نھیں گزرا تھا که کعبہ کی جنوبی مشرقی دیوار ، عباس بن عبد المطلب اور یزید بن تعف کی نظروں کے سامنے شگافته ہوئی، فاطمہ بنت اسد کعبہ میں داخل ہوئیں اور دیوار دوباره مل گئی ۔ فاطمه بنت اسد تین دن تک روئے زمین کے اس سب سے مقدس مکان میں اللہ کی مھمان رہیں اور تیره رجب سن ۳۰ عام الفیل کو بچہ کی ولادت ہوئی ۔ ولادت کے بعد جب فاطمه بنت اسد نے کعبہ سے باہر آنا چاھا تو دیوار دو باره شگافتہ ہوئی، آپ کعبه سے باہر تشریف لائیں اور فرمایا :” میں نے غیب سے یہ پیغام سنا ہے که اس بچے کا نام” علی “ رکھنا ۔

بچپن ا ور تربیت

حضرت علی (علیہ السلام) تین سال کی عمر تک آپنے والدین کے پاس رہے اور اس کے بعد پیغمبر اسلام (ﷺ) کے پاس آگئے۔ کیون کہ جب آپ تین سال کے تھےاس وقت مکہ میں بھت سخت قحط پڑا ۔جس کی وجہ سے رسول الله (ﷺ) کے چچا ابو طالب کو اقتصادی مشکل کابہت سخت سامنا کرنا پڑا ۔
Ali_019رسول الله (ﷺ) نے آپنے دوسرے چچا عباس سے مشوره کرنے کے بعد یہ طے کیا کہ ہم میں سے ہر ایک، ابو طالب کے ایک ایک بچے کی کفالت آپنے ذمہ لے لے تاکہ ان کی مشکل آسان ہو جائے ۔ اس طرح عباس نے جعفر
اور رسول الله (ﷺ) نے علی (علیہ السلام) کی کفالت آپنے ذمہ لے لی ۔
Ali_004
حضرت علی (علیہ السلام) پوری طرح سے پیغمبر اکرم (ﷺ) کی کفالت میں آگئے اور حضرت علی (علیہ السلام) کی پرورش براهِ راست حضرت محمد مصطفےٰ کے زیر نظر ہونے لگی ۔ آپ نے انتہائی محبت اور توجہ سے آپنا پورا وقت، اس چھوٹے بھائی کی علمی اورا خلاقی تربیت میں صرف کیا. کچھ تو حضرت علی (علیہ السلام) کے ذاتی جوہر اور پھراس پر رسول جیسے بلند مرتبہ مربیّ کافیض تربیت ، چنانچہ علی علیہ السّلام دس برس کے سن میں ہی اتنی بلندی پر پہنچ گئے کہ جب پیغمبر اسلام (ﷺ) نے رسالت کا دعوی ک یا، تو آپ نے ان کی تصدیق فرمائ ۔ آپ ھمیشه رسول الله (ﷺ) کے ساتھ رھتے تھے، یہاں تک کہ جب پیغمبر اکرم (ﷺ) شھر سے باھر، کوه و بیابان کی طرف جاتے تھے تو آپ کو آپنے ساتھ لے جاتے تھے ۔

پیغمبر اکرم (ﷺ) کی بعثت اور حضرت علی (علیہ السلام)۔
جب حضرت محمد مصطفے ( ﷺ ) چالیس سال کے ہوئے تو اللہ نے انہیں عملی طور پر آپنا پیغام پہنچانے کے لئے معین فرمایا ۔ اللہ کی طرف سے پیغمبر (ﷺ) کو جو یہ ذمہ داری سونپی گئ ، اسی کو بعثت کہتے ہیں۔حضرت محمد (ﷺ) پر وحی الٰہی کے نزول و پیغمبری کے لئے انتخاب کے بعدکی تین سال کی مخفیانہ دعوت کے بعد بالاخرخدا کی طرف سے وحی نازل ہوئ اور رسول الله (ﷺ) کو عمومی طور پر دعوت اسلام کا حکم دیا گیا ۔
Hira Cave01
اس دوران پیغمبراکرم (ﷺ) کی الہٰی دعوت کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے والے تنہا حضرت علی (علیہ السلام) تھے۔ جب رسول الله (ﷺ) نے اپنے اعزاء و اقرباء کے درمیان اسلام کی تبلیغ کے لئے انہیں دعوت دی تو آپ کے ہمدرد و ہمدم، تنھا حضرت علی (علیہ السلام) تھے ۔اس دعوت میں پیغمبر خدا (ﷺ) نےحاضرین سے سوال کیا کہ آپ میں سے کون ہے جو اس راه میں میری مدد کرے اور آپ کے درمیان میرا بھائی، وصی اور جانشین ہو؟ اس سوال کا جواب فقط حضرت علی (علیہ السلام) نے دیا :” اے پیغمبر خدا ! میں اس راه میں آپ کی نصرت کروں گا ۔ پیغمبر اکرم (ﷺ) نے تین مرتبه اسی سوال کی تکرار اور تینوں مرتبہ حضرت علی (علیہ السلام) کا جواب سننے کے بعد فرمایا اے میرے خاندان والوں ! جان لو که علی میرا بھائی اور میرے بعد تمھارے درمیان میرا وصی و جانشین ہے ۔ علی (علیہ السلام) کے فضائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ (علیہ السلام) رسول الله (ﷺ) پر ایمان لانے والے سب سے پہلے شخص ہیں ۔
IA_031
اس سلسلے میں ابن ابی الحدید لکھتے ہیں بزرگ علماء اور گروه معتزلہ کے متکلمین کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ علی بن ابی طالب (علیہ السلام) وه پہلے شخص ہیں جو پیغمبر اسلام پر ایمان لائے اور پیغمبر خدا (ﷺ) کی تصدیق کی ۔ رسول اسلام کی بعثت، زمانہ , ماحول, شہر اور آپنی قوم و خاندان کے خلاف ایک ایسی مہم تھی ، جس میں رسول کا ساتھ دینے والا کوئی نظر نہ آتا تھا ۔ بس ایک علی (علیہ السّلام) تھے کہ جب پیغمبر نے رسالت کا دعویٰ کیا تو انہوں نے سب سے پہلے ا ن کی تصدیق کی اور ان پر ایمان کااقرارکیا . دوسری ذات جناب خدیجة الکبریٰ کی تھی، جنھوں نے خواتین کے طبقہ میں سبقتِ اسلام ک ا شرف حاصل کیا۔ پیغمبر کادعوائے رسالت کرنا تھا کہ مکہ کا ہر آدمی رسول کادشمن نظر انے لگا . وہی لوگ جو کل تک آپ کی سچائی اورامانتداری کادم بھرتے تھے اج آپ کو ( معاذ الله ( دیوانہ، جادو گر اور نہ جانے کیا کیا کہنے لگے۔ اللہ کے رسول کے راستوں میں کانٹے بچھائے جاتے، انہیں پتھر مارے جاتے اور ان کے سر پر کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا.
Ali_014
اس مصیبت کے وقت میں رسول ک ے شریک صرفاور صرف حضرت علی (علیہ السلام) تھے، جو بھائی کاساتھ دینے میں کبھی بھی ہمت نہیں ہار تے تھے ۔ وہ ہمیشہ محبت ووفاداری کادم بھرتے رہےاور ہرموقع پر رسول کے سینہ سپر رہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت بھی ایا جب مخالف گروہ نے انتہائی سختی کے ساتھ یہ طے کرلیا کہ پیغمبر اور ان کے تمام گھر والوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ حالات اتنے خراب تھے کہ جانوں کے لالے پڑ گئے تھے .حضرت ابو طالب (علیہ السّلام) نے آپنے تمام ساتھیوں کو حضرت محمدمصطفےٰ سمیت ایک پہاڑ کے دامن میں محفوظ قلعہ میں بند کردیا۔ وہان پر تین برس تک قید وبند کی زندگی بسر کرنی پڑی . کیون کہ اس دوران ہر رات یہ خطرہ رہتا تھا کہ کہیں دشمن شب خون نہ مار دے .
Ali_001
اس لئے ابو طالب علیہ السّلام نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ وہ رات بھر رسول کو ایک بستر پر نہیں رہنے دیتے تھے، بلکہ ک بھی رسول کے بستر پر جعفر کو اور جعفر کے بستر پر رسول کو ک بھی عقیل کے بستر پر رسول کو اور رسول کے بستر پر عقیل کو ک بھی علی کے بستر پر رسول کو اور رسول کے بستر پر علی (علیہ السّلام) کو لٹا تے رہتے تھے. مطلب یہ تھا کہ اگر دشمن رسول کے بستر کا پتہ لگا کر حملہ کرنا چاہے تو میرا کوئ بیٹا قتل ہوجائے مگر رسول کا بال بیکانہ ہونے پائے . اس طرح علی (علیہ السّلام) بچپن سے ہی فدا کاری اور جان نثاری کے سبق کو عملی طور پر دہراتے رہے
line
رسول اللہ کی ہجرت اور حضرت علی (علیہ اسلام)۔
حضرت علی (علیہ السلام) کے دیگر افتخارات میں سے ایک یہ ہے کہ جب
شب ہجرت مشرک دشمنوں نے رسول الله (ﷺ) کے قتل کی سازش کی تو آپ (علیہ السلام) نے پوری شجاعت کے ساتھ رسول الله (ﷺ) کے بستر پر سو کر انکی سازش کو نا کام کر دیا۔
Jabal e Thor4, Mecca, Saudiaآنحضرت نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ اور ابو طالب (علیہ السّلام) کے وفات کے سال کو عام الحزن قرار دیا۔ ابو طالب کی تلوار نے اہل مکہ کو خاموش رکھا تھا۔ اس نے بعد کفار کی ریشہ دوانیاں بڑھ گئیں۔ پھر آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کاارادہ کرلیا ۔ دشمنوں نے یہ سازش رچی کہ ایک رات جمع ہو کر پیغمبر کے گھر کو گھیر لیں اور حضرت کو شہید کرڈالیں۔ جب حضرت کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے آپنے جاں نثار بھائی علی (علیہ السّلام) کو بلا کر اس سازش کے بارے میں اطلاع دی اور فرمایا کہ میری جان اس طرح بچ سکتی ہے اگر آج رات آپ میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کر سو جاؤ اور میں مخفی طور پر مکہ سے روانہ ہوجاؤں .
Jabal e Thor3, Mecca, Saudia
کوئی دوسرا ہوتاتو یہ پیغام سنتے ہی اس کا دل دہل جاتا، مگر علی (علیہ السّلام) نے یہ سن کر کہ میرے ذریعہ سے رسول کی جان کی حفاظت ہوگی، خدا کاشکر ادا کیا اور بہت خوش ہوئے کہ مجھے رسول کافدیہ قرار دیا جارہا ہے۔ یہی ہوا کہ رسالت مآب شب کے وقت مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے اور علی بن ابی طالب (علیہ السّلام) رسول کے بستر پر سوئے۔ چاروں طرف خون کے پیاسے دشمن تلواریں کھینچے نیزے لئے ہوئے مکان کوگھیرے ہوئے تھے .
Masjid Quba
بس اس بات کی دیر تھی کہ ذرا صبح ہو اور سب کے سب گھر میں داخل ہو کر رسالت ما ٓ ب کو شہید کر ڈالیں . علی (علیہ السّلام) اطمینان کے ساتھ بستر پرارام کرتے رہے اور اپنی جان کا ذرا بھی خیال نہ کیا۔ جب دشمنوں کو صبح کے وقت یہ معلوم ہوا کہ محمد نہیں ہیں تو انھوں نے آپ پر یہ دباؤ ڈالا کہ آپ بتلادیں کہ رسول کہا ںگئے ہیں؟ مگر علی (علیہ السّلام) نے بڑے بہادرانہ انداز میں یہ بتانے سے قطعی طور پر انکار کردیا . اس کا نتیجہ یہ ہواکہ رسول الله (ﷺ) مکہ سے کافی دور تک بغیر کسی پریشانی اور رکاوٹ کے تشریف لے جاسکیں.علی (علیہ السّلام) تین روز تک مکہ میں رہے . جن لوگوں کی امانتیں رسول الله کے پاس تھیں ان کے سپرد کر کےخواتین بیت رسالت کو آپنے ساتھ لے کرمدینہ کی طرف روانہ ہوئے .
Masjid Quba2
آپ کئ روز تک رات دن پیدل چلے کر اس حالت میں رسول کے پاس پہنچے کہ آپ کے پیروں سے خون بہ رہا تھا. اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ علی علیہ السّلام پر رسول کو سب سے زیادہ اعتماد تھااور جس وفاداری , ہمت اور دلیری سے علی (علیہ السّلام) نے اس ذمہ داری کو پورا کیا ہے وہ بھی آپنی آپ میں ایک مثال ہے۔
line
شادی (حضرت علی السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا)۔

http://tune.pk/video/3791996/zaman-zaki-taji-qawwal-ali-ke-sath-hai-zahra-ke-shadi

جب رسول اکرم (ﷺ) ہجرت کر کے مدینے گئے تو فاطمہ زہرا السّلام اللہ عل یہا بالغ ہو چکی تھیں اور پیغمبر(ﷺ) اپنی اکلوتی بیٹی فاطمہ زہرا السّلام اللہ علیہا ک ی شادی کی فکر میں تھے.کیوں کہ رسول(ﷺ) اپنی بیٹی س ے بہت محبت کر تے تھے اور انہیں اتنی عزت دیتے تھے کہ جب فاطمہ زہرا (سّلام اللہ علیہا) ان کے پاس تشریف لاتی تھیں تو رسول اللہ (ﷺ)ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے .
IA_Shadi01
اس لئے ہر شخص رسول کی اس معزز بیٹی کے ساتھ منسوب ہونے کا شرف حاصل کرنے کی تمنا میں تھا. کچھ لو گوں نے ہمت کر کے رسول اللہ کو پیغام بھی دیا مگر حضرت نے سب کی خواہشوں کو رد کردیا اور فرمایا کہ فاطمہ کی شادی اللہ کے حکمِ بغیر نہیں ہوسکتی ۔ عمر و ابوبکر قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ سے مشوره کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ علی (علیہ السلام ) کے سوا کوئی بھی زھرا (سلام اللہ علیہا) کے ساتھ ازدواج کی لیاقت نھیں رکھتا۔
IA_Shadi02
ایک دن جب حضرت علی (علیہ السلام ) انصار رسول (ﷺ) میں سے کسی کے باغ میں آبیاری کر رہے تھے تو انھوں نے اس موضوع کو آپ (علیہ السلام ) کے سامنے چھیڑا اور آپ نے فرمایا میں بھی دختر رسول (ﷺ) سے شادی کا خواہاں ہوں ، یہ کہہ کر آپ رسول الله (ﷺ) کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ جب رسول الله (ﷺ) کی خدمت میں پہنچے تو رسول الله (ﷺ) کی عظمت اس بات میں مانع ہوئی که آپ (علیہ السلام ) کچھ عرض کریں ۔
IA_Shadi03
جب رسول الله (ﷺ) نے آنے کی وجہ دریافت کی تو حضرت علی (علیہ السلام ) نے اپنے فضائل، تقویٰ اور اسلام کے لئے آپنے سابقہ کارناموں کی بنیاد پرعرض کیا : ” آیا آپ فاطمه کو میرے عقد میں دینا بہتر سمجھتے ہیں ؟ حضرت زھرا (سلام اللہ علیہا) کی رضامندی کے بعد رسول الله (ﷺ) نے یہ رشتہ قبول کر لیا۔ ہجرت کا پہلا سال تھا کہ رسول نے علی (علیہ السّلام) کو اس عزت کے لئے منتخب کیا . یہ شادی نہایت سادگی کے ساتھ انجام دی گئ .
IA_Shadi04
حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا مہر حضرت علی (علیہ السّلام) سے لے کر اسی سے کچھ گھر کا سامان خریدا گیا جسے جہیز طور پر دیا گیا۔ وہ سامان بھی کیاتھا ؟ کچھ مٹی کے برتن ، خرمے کی چھال کے تکیے، چمڑے کابستر، چرخہ، چکی اور پانی بھرنے کی مشک حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کا مہر ایک سو سترہ تولے چاندی قرار پایا، جسےحضرت علی علیہ السّلام نے آپنی زرہ فروخت کر کے ادا کیا
line
کتابت وحی
حضرت علی (علیہ السلام) قرآنی آیات کو لکھتے اور منظم و کرتے تھے
اسی لئے آپ کو کاتبان وحی اور حافظان قرآن میں شمار کیا جاتا ہے ۔
Quran by Ali
اس کے علاوہ تاریخی و سیاسی نوعیت کی اسناد کی تنظیم کرتے تھے۔ معاہدے وغیرہ آپ نے لکھے۔دعوت الٰہی کے تبلیغی خطوط لکھنا، باد شاہاں وقت سے مراسلت کی ذمہ داری بھی تھی۔
line
حضرت علی (علیہ ااسلام) ، پیغمبراسلام (ﷺ) کے بھائی
پیغمبراسلام (ﷺ) نےمدینے پہنچ کر مسلمانوں کے درمیان بھائ کا رشتہ قائم کیا۔ عمر کو ابو بکر کا بھائ بنا بنا یاطلحہ کو زبیر کا بھائ قرار دیا ۔
IA_035 اور حضرت علی (علیہ السلام ) کو رسول الله (ﷺ) نے اپنا بھائ بنایا اور حضرت علی (علیہ السلام ) سے فرمایا تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ھو، اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ
مبعوث فرمایا ۔۔۔ میں تمھیں آپنی اخوت کے لئے انتخاب کرتا ہوں ،
ایک ایسی اخوت جو دونوں جھان میں بر قرار رہے ۔
line
حضرت علی (علیہ السلام) اور اسلا می جہاد
اسلام کے دشمنوں نے پیغمبراسال (ﷺ) کو مدینہ میں چین سے نہ بیٹھنے دیا. جو مسلمان مکہ میں تھے انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دی گئیں کچھ کو قتل کر دیا گیا، کچھ کو قیدی بنا لیاگیا اور کچھ کو مارا پیٹاگیا. یہی نہیں بلکہانہوں نے اسلحہ اور فوج جمع کر کے خود رسول کے خلاف مدینہ پر چڑاھئی کردی۔ اس موقع پر رسول اللہ (ﷺ) کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ مدینہ والوں کے گھروں کی حفاظت کریں،
IA_211
کیوں کہ انھوں نے آپ کو پریشانی کے عالم میں پنا ہ دی تھی اور آپ کی نصرت و مداد کاوعدہ کیا تھا، لہذا آپ نے یہ کسی طرح پسند نہ کیا کہ آپ شہر کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ کریں اور دشمن کو مدینہ کی پر امن ابادی میں داخل ہونے اور عورتوں اور بچوں کو پریشان کرنے کا موقع دیں. آپ کے ساتھیوں تعداد بہت کم تھی۔ آپ کے
پاس کل تین سو تیرہ آدمی تھے اور مب کے پاس ہتھیار بھی نہیں تھے،
IA_034
مگر آپ نے یہ طے کیا کہ ہم مدینے سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ چنانچہ یہ اسلام کی پہلی جنگ ہوئی جوآگے چل کر جنگِ بدر کے نام سے مشہور ہوئ ۔اس جنگ میں رسول اللہ (ﷺ) نے آپنے عزیزوں کو زیادہ آگے رکھا، جس کی وجہ سے آپ کے چچا زاد بھائی عبید ابن حارث ابن عبدالمطلب اس جنگ میں شہید ہوگئے . علی (علیہ السّلام) ابن ابی طالب کو جنگ کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ اس وقت ان کی عمر صرف ۲۵برس تھی مگر جنگ کی فتح کا سہرا (علی علیہ السّلام) کے سر ہی بندھا۔
IA_202
جتنے مشرکین قتل ہوئے ان میں سے ادھےحضرت علی (علیہ السّلام) کے ہاتھ سے اور ادھے، باقی مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ اس کے بعد ،اُحد، خندق،خیبراور اخر میں حنین یہ وہ بڑی جنگیں تھیں جن میں حضرت علی (علیہ السّلام) نے رسول اللہ کے ساتھ رہ کر اپنی بہادری کے جوہر دکھا ئے۔ تقریباً ان تمام جنگوں میں علی (علیہ السّلام) کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا . اس کے علاوہ بہت سی جنگیں ایسی تھیں جن میں رسول نےحضرت علی (علیہ السّلام) کو تنہا بھیجا اورانھوں نے اکیلے ہی بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ فتح حاصل کی اور استقلال،تحمّل اور شرافت ُ نفس کا وہ مطاہرہ کیا کہاس کا اقرار خود ان کے دشمن کو بھی کرنا پڑا۔
IA_209
جب خندق کی جنگ میں دشمن کے سب سے بڑے سورماعمر وبن عبدود کو آپ نے مغلوب کر لیا اور اس کاسر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پرسوار ہوئے تو اس نے آپ کے چہرے پر لعب دہن پھینک دیا۔ آپ کو غصہ اگیا اور آپ اس کے سینے سے اتر ا ٓئے . صرف اس خیال سے کہ اگراس غصّےکی حالت میں اس کو قتل کیا تو یہ عمل خواہش نفس کے مطابق ہوگا، خدا کی راہ میں نہ ہوگا۔ اسی لئے آپ نے اس کو کچھ دیر کے بعد قتل کیا۔ اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش کو برہنہ کردیتے تھے، مگر حضرت علی علیہ السّلام نے اس کی زرہ نہیں اُتاری جبکہ وہ بہت قیمتی تھی
Ali_012
چنانچہ جب عمرو کی بہن آپنے بھائی کی لاش پر ائی تو اس نے کہا کہاگر علی کے علاوہ کسی اور نے میرے بھائی کوقتل کیا ہوتا تو میں عمر بھر روتی، مگر مجھے یہ دیکھ کر صبر اگیا کہ اس کاقاتل شریف انسان ہے جس نے آپنے دشمن کی لاش کی توہین گوارا نہیں کی۔ آپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یابچّوں پر ہاتھ نہیں اٹھا یا اور نہ کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ کیا
line
غدیر خم

پیغمبر اکرم (ﷺ) آپنی پر برکت زندگی کے آخری سال میں حج کا فریضہ انجام دینے کے بعد مکہ سےمدینے کی طرف پلٹ رہے تھے، جس وقت آپ کا قافلہ جحفه کے نزدیک غدیر خم نامی مقام پر پہنچا تو جبرئیل امین یہ آیہ بلغ لیکرنازل ہوئے، پیغمبر اسلام (ﷺ)نے قافلےکو ٹھرنے کا حکم دیا ۔
IA_212
نماز ظہر کے بعد پیغمبر اکرم (ﷺ) اونٹوں کے کجاوں سے بنے منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا ” ایھا الناس ! وہ وقت قریب ہے که میں دعوت حق پر لبیک کہتے ہوئے تمھارے درمیان سے چلا جاؤں ،لہذا بتاو کہ میرے بارے میں تمہاری کیا رای ہے؟ سب نے کہا :” ھم گواہی دیتے ہیں آپ نے الٰھی آئین و قوانین کی بہترین طریقے سے تبلیغ کی ہے “ رسول الله (ﷺ) نے فرمایا ” کیا تم گواھی دیتے ہو کہ خدائے واحد کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نھیں ھے اور محمد خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہے “۔ پھر فرمایا: ” ایھا الناس ! مومنوں کے نزدیک خود ان سے بہتر اور سزا وار تر کون ہے ؟“۔ لوگوں نے جواب دیا :” خدا اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں “۔
IA_213
پھر رسول الله (ﷺ) نے حضرت علی (علیہ السلام) کے ھاتھ کو پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا :” ایھا الناس ! من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں“ ۔ رسول الله (ﷺ) نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی ۔ اس کے بعد لوگوں نے علی (علیہ السلام) کواس منصب ولایت کے لئے مبارکباددی اور آپ ؑ کے ہاتھوں پر بیعت کی ۔

حضرت علی علیہ السلام، پیغمبر اسلام (ص) کی نظر میں
علی علیہ السّلام کے امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول ان کی بہت عزت کرتے تھے او ر اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے کبھی یہ کہتے تھے کہ »علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں« .کبھی یہ کہا کہ »میں علم کاشہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے . کبھی یہ کہا »آپ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے . کبھی یہ کہا»علی کومجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی . کبھی یہ کہا»علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یاسر کو بدن سے ہوتا ہے کبھی یہ کہ»وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں ,, یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفسِ رسول کاخطاب ملا. عملی اعزاز یہ تھا کہ جب مسجدکے صحن میں کھلنے والے، سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کادروازہ کھلا رکھا گیا . جب مہاجرین وانصار میں بھائی کا رشتہ قائم کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر نے آپنا بھائی قرار دیا۔ اور سب سے اخر میں غدیر خم کے میدان میں مسلمانوں کے مجمع میں علی علیہ السّلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس طرح میں تم سب کا حاکم اور سرپرست ہوں اسی طرح علی علیہ السّلام، تم سب کے سرپرست اور حاکم ہیں۔ یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ تمام مسلمانوں نے علی علیہ السّلام کو مبارک باد دی اور سب نے سمجھ لیا کہ پیغمبر نے علی علیہ السّلام کی ولی عہدی اور جانشینی کااعلان کردیا ہے
line
رسول اللہ (ﷺ)کی وفات اور حضرت علی (علیہ السلام)۔
ہجرت کا دسواں سال تھا کہ پیغمبر خدا (ﷺ)ایک ایسے مرض میں مبتلا ہوئے، جو ان کے لئے مرض الموت ثابت ہوا۔ یہ خاندان ُ رسول کے لئے بڑی مصیبت کاوقت تھا۔ حضرت علی (علیہ السّلام) رسول کی بیماری میں آپ کے پاس موجود رہ کر تیمارداری کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ اور رسول اللہ (ص) بھی آپنے پاس سے ایک لمحہ کے لئے بھی حضرت علی علیہ السّلام کا جدا ہونا گوارانہیں کرتے تھے . پیغمبر اسلام (ص) نے علی علیہ السّلام کو آپنے پاس بلایا اور سینے سے لگا کر بہت دیر تک باتیں کرتے رہے اور ضروری وصیتیں فرمائیں . اس گفتگو کے بعد بھی حضرت علی علیہ السّلام کو آپنے سے جدا نہ ہونے دیا اور ان کا ہاتھ اپنے سینے پر رکھ لیا. جس وقت رسول اللہ (ص) کی روح جسم سے جداہوئی، اس وقت بھی حضرت علی علیہ السّلام کاہاتھ رسول کے سینے پر رکھاہوا تھا۔ جس نے زندگی بھر پیغمبر کا ساتھ دیا ہو، وہ بعد رسول ان کی لاش کو کس طرح چھوڑ سکتا تھا، لہذا رسول کی تجہیز وتکفین اور غسل کا تمام کام علی علیہ السّلام نےاپنے ہاتھوں سے انجام دیا اور رسول اللہ (ص)کواپنے ھاتھوں سے قبر میں رکھ کر دفن کر دیا۔
line
حضرت علی (علیہ السلام) کی ظاہری خلافت
رسول اللہ (ﷺ) کے بعدحضرت علی علیہ السّلام نے پچیس برس خانہ نشینی میں بسر کئے۔ جب سن ۳۵ ہجری قمری میں مسلمانوں نے خلافت ُ اسلامی کامنصب حضرت علی (علیہ السّلام) کے سامنے پیش کیا تو پہلےتو آپ نے انکار کر دیا، لیکن جب مسلمانوں کااصرار بہت بڑھا تو آپ نے اس شرط سے منظو رکرلیا کہ میں قران اور سنت ُ پیغمبر(ﷺ) کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رورعایت سے کام نہ لوں گا۔ جب مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کر لیا تو آپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی- مگر زمانہ آپ کی خالص دینی حکومت کو برداشت نہ کرسکا، لہذا بنی امیہ اور بہت سے وہ لوگ، جنھیں آپ کی دینی حکومت کی وجہ سے آپنے اقتدار کے ختم ہوجانے کا خطرہ محسوس ہو گیا تھا، وہ آپ کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ آپ نے ان سب سے مقابلہ کرنااپنا فرض سمجھا،جس کے نتیجے میں جمل، صفین، اور نہروان کی جنگیں ہوئیں . ان جنگوں میں حضرت علی بن ابی طالب علیہما السّلام نے اس شجاعت اور بہادری سے جنگ کی جو بدر، احد، خندق، وخیبرمیں کسی وقت دیکھی جاچکی تھی اور زمانہ کو یاد تھی .ان جنگوں کی وجہ سے آپ کو اتنا موقع نہ مل سکا کہ آپ اس طرح اصلاح فرماتے جیساکہ آپ کا دل چاہتا تھا . پھر بھی آپ نے اس مختصرسی مدّت میں، سادہ اسلامی زندگی، مساوات اور نیک کمائی کے لیے محنت ومزدوری کی تعلیم کے نقش تازہ کردئے۔ آپ شہنشاہ ُ اسلام ہونے کے باوجود کجھوروں کی دکان پر بیٹھنا اور آپنے ہاتھ سے کھجوریں بیچنا بُرا نہیں سمجھتے تھے۔ پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے تھے، غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھالیتے تھے . جو مال بیت المال میں اتا تھا اسے تمام حقداروں کے درمیان برابر تقسیم کردیتے تھے ۔ یہاں تک کہ آپ کے سگے بھائی عقیل نےجب یہ چاہا کہ انہیں، دوسرے مسلمانوں سے کچھ زیادہ مل جائے،تو آپ نے انکار کردیا اور فرمایا کہ اگر میرا ذاتی مال ہوتا تو یہ ممکن تھا، مگر یہ تمام مسلمانوں کا مال ہے ، لہذا مجھے حق نہیں ہے کہ میں اس میں سے اپنے کسی عزیز کو دوسروں سے زیادہ حصہ دوں۔ انتہا یہ ہے کہ اگرآپ کبھی رات کے وقت بیت المال میں حساب وکتاب میں مصروف ہوتے اور کوئی ملاقات کے لیے آجاتا اور غیر متعلق باتیں کرنے لگتا تو آپ چراغ کو بھجادیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بیت المال کے چراغ کو میرے ذاتی کام میں صرف نہیں ہونا چاہئے . آپ کی کوشش یہ رہتی تھی کہ جو کچھ بیت المال میں ائے وہ جلد سے جلد حق داروں تک پہنچ جائے . آپ اسلامی خزانے میں مال کو جمع کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔
line
حضرت علی علیہ السلام کی شہادت
جنگ نہروان کے بعد خوارج میں سے کچھ لوگ جیسے عبد الرحمن بن ملجم
مرادی ، ومبرک بن عبد الله تمیمی اور عمر و بن بکر تمیمی ایک رات میں ایک جگہ جمع ہوئےاور نہروان میں مارے گئے اپنےساتھیوں کو یاد کیا کرتے ہوئے ان دنوں کے حالات اور داخلی جنگوں کے بارے میں تبادلہ خیال کرنےلگے۔ بالآخروہ اس نتیجہ پر پہنچے که اس قتل و غارت کی وجہ حضرت علی (ع) معاویہ اورعمرو عاص ہیں اور اگر ان تینوں افراد کو قتل کر دیا جائے تو مسلمان اپنے مسائل کوخود حل کر لیں گے۔
IMG_1108
لہذا انھوں نے آپس میں طےکیا کہ ہم میں سے ہر ایک آدمی ان میں سے ایک ایک کو قتل کرے گا ۔ ابن ملجم نے حضرت علی (ع) کے قتل کا عہد کیا اور سن۴۰ ہجری قمری میں انیسویں رمضان المبارک کی شب کو کچھ لوگوں کے ساتھ مسجد کوفہ میں آکر بیٹھ گیا ۔ اس شب حضرت علی (ع) اپنی بیٹی کے گھر مہمان تھے اور صبح کو واقع ہونے والے حادثہ سے با خبر تھے۔ لہذا جب اس مسئلہ کو اپنی بیٹی کے سامنے بیان کیا تو ام کلثوم نے کہا کہ کل صبح آپ ۔۔۔کو مسجد میں بھیج دیجئے ۔ حضرت علی (ع) نے فرمایا : قضائے الٰہی سے فرار نہیں کیا جا سکتا۔ پھر آپنے کمر کے پٹکے کو کس کر باندھا اور اس شعر کو گنگناتےہوئے مسجد کی طرف روانہ ہوگئے ۔
IMG_1153
” اپنی کمر کو موت کے لئے کس لو ، اس لئے کہ موت تم سے ملاقات کرے گی ۔ اور جب موت تمھاری تلاش میں آئے تو موت کے ڈر سے نالہ و فریاد نہ کرو “۔ حضرت علی (ع) سجده میں تھے کہ ابن ملجم نے آپ کے فرق مبارک پر تلوار کا وار کیا۔ آپ کے سر سے خون جاری ہواآپ کی داڑھی اور محراب خون سے رنگین ہو گئ۔ اس حالت میں حضرت علی (ع) نے فرمایا : ” فزت و رب الکعبه “ کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ھو گیا۔
IA_203
پھر سوره طہ کی اس آیت کی تلاوت فرمائی ”ہم نے تم کو خاک سے پیدا کیا ھے اور اسی خاک میں واپس پلٹا دیں گے اور پھر اسی خاک تمھیں دوباره اٹھائیں گے “۔حضرت علی (ع) اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی لوگوں کی اصلاح و سعادت کی طرف متوجہ تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں، عزیزوں اور تمام مسلمانوں سے اس طرح وصیت فرمائی :
” میں تمہیں پرھیز گاری کی وصیت کرتا ہوں اور وصیت کرتا ہوں کہ تم اپنے تمام امور کو منظم کرو اور ہمیشه مسلمانوں کے درمیان اصلاح کی فکر کرتے رھو ۔ یتیموں کو فراموش نہ کرو ۔ پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کرو ۔ قرآن کو اپنا عملی نصاب قرار دو ،نماز کی بہت زیادہ قدر کرو، کیوں کہ یہ تمھارے دین کا ستون ہے “۔
آپ کے رحم وکرم اور مساوات پسندی کا عالم یہ تھا کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لا یا گیا، اورآپ نے دیکھا کہ اس کاچہرہ زرد ہے اور انکھوں سے انسو جاری ہیں، تو آپ کو اس پر بھی رحم اگیا۔ آپنے اپنے دونوں بیٹوں امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ ہمارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا، جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا، اگر میں صحتیاب ہو گیا تو مجھے اختیار ہے کہ چاہے اسے سزا دوں یا معاف کردوں اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور آپ نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگاناکیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے ۔ اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کرنا کیوں کہ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔
IA_214
حضرت علی علیہ السّلام دو روز تک بستر بیماری پر کرب و بے چینی کے ساتھ کروٹیں بدلتے رہے۔ آخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور ۲۱رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی روح جسم سے پرواز کر گئ .حضرت امام حسن و امام حسین علیہما السّلام نے تجہیزو تکفین کے بعد آپ کے جسم اطہر کو نجف میں دفن کر دیا۔

امام محمدتقی علیہ السلام کی مختصر سوانح حیات

Source

ظہور امام (علیہ السلام)۔
حضرت امام رضا(ع)کی عمر مبارک ۴۷/سینتالیس سال کی ہوچکی تھی اور تاریخ اپنی رفتار کےمطابق ۱۹۵ ہجری کو طے کرتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی لیکن نویں امام محمدتقی(ع)کی ابھی تک ولادت نہیں ہوئی تھی،جس کی وجہ سے امام رضا (ع)کی جانشینی کے مسئلہ نے حضرت (ع)کے اصحاب اور شیعوں کو مغموم، پریشان، متاثر اور حیرت زدہ کر رکھا تھا۔IT_006 یہ غم و اندوہ اس وقت اور بڑھ جاتا تھا کہ جب واقفیہ فرقہ نے مادی دلیلوں کی بناپر،سہم امام میں تصرف اورحضرت امام رضا (ع)کو ان اموال کے واپس نہ کرنے کے لئے امام موسی کاظم (ع)کی غیبت کے قائل ہوگئے تھے۔ واقفیہ فرقہ اپنے شائعات میں حضرت امام رضا (ع)کے کوئی بیٹا نہ ہونے کو اپنے باطل اوربیہودہ دعویٰ کی دلیل جانتا تھا، یہاں تک کی انہیں لوگوں میں سے ایک شخص نے حضرت (ع)کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے ایک خط میں لکھا: آپ کیسے امام ہیں جن کا کوئی بیٹا نہیں ہے!۔ حضرت امام رضا (ع)نے اس کے جواب میں لکھا:تم کو کہاں سے معلوم کہ میرے بیٹا نہیں ہے، خدا کی قسم کچھ ایام نہیں گزریں گے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بیٹا عنایت کرے گا جو حق اور باطل کو ایک دوسرے سے الگ کرے گا۔
امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت
آپ (ع)کی ولادت مدینہ منورہ میں رمضان المبارک ، یا رجب ، میں ۱۹۵ ہجری میں ہوئی، ان کی ولادت کی رات حضرت امام رضا(ع)نے اپنی بہن سے کہا:اے حکیمہ خاتون! آج کی رات میرا بیٹا اور میرے بعد ہونے والا امام اس دنیا میں آئے گا، ان کی ولادت کے موقع پر موجود رہو اور خیزران کی مدد کرو۔
حکیمه خاتون کہتی ہیں:میں اس رات خیزران کے پاس رک گئی، جیسے ہی آدھی رات گزری اچانک کمرے کا چراغ بجھ گیا اور ایک نور سے پورا کمرہ روشن ومنور ہوگیا، دھیرے دھیرے امام (ع) کا نورانی چہرہ دکھائی دیا، اس وقت اسے آغوش میں لے کر اس طیب و طاہر بچے کو پاکیزہ لباس میں رکھا، اسی موقع پر امام رضا(ع)مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئےاور اس بچے کو اپنی آغوش میں لے لیا
IT_002
اس طرح بوستان امامت کےاس پھول نے دنیا میں قدم رکھا تاکہ حضرت امام رضا(ع)کاسچا وعدہ حقیقت سے ہمکنار ہو اور آٹھویں امام(ع)کا قلب منوّر خوشیوں سے مملو ہو ۔ نویں امام کا نام محمد(ع) اور ان کی کنیت ابوجعفر اور ابوعلی ہے ان کے القاب مندرجہ ذیل ہیں:مختار، متوکّل، متّقى، زکىّ، تقى، مُنتَجَب، مرتضىٰ، قانِع، جواد اور عالِم ہے۔ لیکن امام محمد تقي(ع)کے جود و سخاوت کی کثرت و فراوانی کی بناپر ان کا معروف ترين لقب “جواد”ہے۔
سلسلہ نسب
جواد الائمہ امام محمد تقی (ع)،حضرت ثامن الحجج علی بن موسیٰ بن -جعفربن محمدبن علی بن حسین علیہم السلام کے بیٹے ہیں اور ان کی مادر گرامی ایک متقی و پرہیزگار خاتون ہیں ان کا سلسلہ نسب پیغمبر اسلام (ع)کی زوجہ محترمہ ماریہ قبطیہ سے ملتا ہے، ان کا نام سبیکہ ہےاور امام رضا (ع)نے ان کا نام خیزران رکھا۔
امام محمد تقی(ع)کی ازواج اور اولاد
امام محمدتقی(ع)کی پہلی بیوی کا نام سمانہ مغربیہ ہے۔ کتابوں میں ان کے مختلف نام حویث، غزالہ مغربیہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ امام (ع)کی دوسری بیوی مامون عباسی کی بیٹی ہے۔ مامون نے اپنے زمانے کی کچھ مشکلوں اور سخت ترین سیاسی دشواریوں کی بناپر ارادہ کیا کہ امام محمد تقی علیہ السلام سے دوستی و محبت کا تظاہر و دکھاوا کرکے اپنی بیٹی “ام الفضل” کی شادی آپ سے کردے۔
IT_005
اس بیوی سے امام (ع)کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اسلامی منابع و مآخذ میں امام محمدتقی علیہ السلام کی اولاد اور اور ان کے ناموں کے متعلق مختلف نظریات ذکر کئے گئے ہیں،شیخ طبرسی کہتے ہیں امام محمد تقی (ع)کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں، ان میں سے ایک حضرت امام علی نقی (ع)ہیں اور دوسرے بیٹے کا نام موسیٰ ہے اور بیٹیوں کا نام حکیمہ، خدیجہ اور ام¬کلثوم ہے، بعض نے کہا ہے ان کی دو بیٹیوں کا نام فاطمہ اور امامہ تھا۔ لیکن جس بات پر تمام منابع کا اتفاق ہے یہ ہے کہ امام علی نقی (ع)اور موسیٰ مبرقع آپ کی اولاد میں سے ہیں۔
IT_008
امام محمدتقی(ع)نے اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے بعدبچپنے میں امامت کے منصب پر فائز ہوئے اور اس ذمہ داری کو سنبھالا۔روایتوں میں امام رضا (ع)کے بعد امام محمد تقی (ع)کی امامت کی وضاحت کی گئی ہے جیسے کی پیغمبر اکرم (ص)سے منقول حدیثوں میں ائمہ معصومین (ع)کے ناموں کی تصریح موجود ہے ۔ اسی طرح بعض افراد نے حضرت امام رضا(ع)سے امام محمد تقی (ع)کی امامت کے متعلق روایت نقل کی ہے، ان راویوں کے نام درج ذیل ہیں: على ابن جعفر، صفوان ابن یحیى، معمر بن خلاد، حسین بن بشار، ابن -ابى نصر بزنطى، ابن قیاما واسطى، حسن ابن جهم ابویحیى صنعانى، خیرانى، یحیى ابن حبیب زیات وغیرہ۔
امام محمد تقی (ع)کی ثقافتی اور سیاسی تحریکیں
امام محمدتقی (ع)کے زمانے میں مختلف فرقے و مذاہب اور مکاتب فکر، طرح طرح کے عوامل و اسباب کی بناپر وجود میں آئے، جن میں سے ایک اسلامی دنیا کی گسترش، دوسرے مذاہب و ادیان کے عقائد وغیرہ کا داخل ہونا، یونانی فلاسفہ کے آثار کا ترجمہ ہونا اورفرقہ بندی اورلوگوں کا مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوناہے۔امام محمدتقی (ع)اپنے والد بزرگوار کی طرح دو سیاسی و فکری اور ثقافتی محاذ پر کام کررہے تھے۔زيديہ، واقفيہ، غالیوں اور مجسمہ جیسے فرقوں کے شبہات و اعتراضات نیز ان کا اپنے فرقے کے دفاع کی وجہ سے امام (ع) کی ذمہ داری تھی کہ ان کے مقابلے میں شیعہ عقائد اور ثقافت کو واضح اور شفاف طریقہ سے بیان کریں۔
IT_010
امام (ع)نے فرقہ زیدیہ کے متعلق جو منصب امامت کا حقدار امام زين العابدين علیه السلام کے بعد زید کو جانتے تھے، ان لوگوں کو اس آیت کریمہ”وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ، اس دن بہت سے چہرے ذلیل اور رسوا ہوں گے”۔ کی تفسیر میں فرقہ زیدیہ کو ناصبیوں کے ردیف میں شمار کیا ہے۔ حضرت (ع)نے فرقہ واقفيہ کے بارے میں کہ جو لوگ امام موسي كاظم(ع)کی غیبت کے قائل تھےاور اسی بہانہ کی وجہ سے بہت زیادہ شرعی رقوم کو ہڑپ لیا تھا، ایسے لوگوں کو اس آیت شریفہ “وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ، اس دن بہت سے چہرے ذلیل اور رسوا ہوں گے”۔ کا مصداق شمار کیا ہے اور ایک جگہ فرمایا کہ شیعوں کو ان لوگوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھنا چاہئے۔
IT_022
حضرت (ع)نے اپنے زمانے کے غالیوں کو جنہوں نے ابو الخطاب کی رہنمائی میں حضرت علي(ع)کو الوهيت اور ربوبيت کی حد تک پہنچا دیا تھا، امام جواد (ع)نے فرمایا: ابو الخطاب، اس کے ساتھیوں اور جو لوگ اس پر لعنت کرنے میں توقف کریں یا شک کریں، ان سب پر خدا کی لعنت ہو۔ اس فرقہ کے متعلق حضرت(ع)کا سخت رویہ اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ آپ(ع)اسحاق انباری سے ایک روایت میں فرماتے ہیں:” ابو المہري اور ابن ابي الرزقاء کو جس طرح بھی ہوسکے قتل کیا جائے”۔
امام (ع)نے مجسمہ فرقہ کو جو مندرجہ ذیل آیات “يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ”۔ اور “الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى”۔ سے غلط مطلب نکالتے ہوئے خداوند عالم کے جسم کے قائل تھے،ان کے بارے میں آپ (ع)نے فرمایا:” جو لوگ خدا کے جسم کے قائل ہیں شیعوں کو ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے اور زکوٰۃ بھی نہیں دینی چاہئے”۔
معتزلہ جو ایک کلامی فرقہ ہے یہ عباسیوں کے حکومت پر پہنچنےکے بعد میدان میں آیا اور عباسیوں کی خلافت کے سو سال کے اندر اپنے عروج تک پہنچ گیا، یہ بھی امام محمدتقی (ع)کے زمانے کےفکری و عقائدی حوادث میں سے ایک ہے۔ اس زمانے میں امام محمد تقی (ع) کا سلوک، اعتقادی حوادث کے مقابلہ میں اپنے والد بزرگوار کی طرح بڑی اہمیت کا حامل ہے، یہاں تک کہ یحییٰ بن اکثم جو اپنے زمانے کا بہت بڑا فقیہ شمار ہوتا تھا، اس سے امام محمد تقی(ع) کے مناظرےکو خالص شیعہ افکار و اصول سےمعتزلیوں کی محاذ آرائی قرار دی جاسکتی ہےجس میں کامیابی ہمیشہ امام محمد تقی (ع)کے ساتھ رہی ہے۔
IT_023
امام محمدتقی (ع)نے خالص شیعہ ثقافت کو پھیلانے کے لئے عباسیوں کے مختلف بڑے بڑے علاقوں میں اپنے نمائندوں اور کارکنوں کومعین کیا اور بھیجا، یہاں تک کہ امام نے مختلف علاقوں میں جیسے اهواز، همدان، رے، سيستان، بغداد، واسط، سبط، بصره اور شیعہ نشین علاقے جیسے كوفه و قم وغیرہ میں فعال و سرگرم وکیل موجود تھے۔
امام محمد تقی (ع)نے بنی عباس کی حکومت میں شیعوں کے نفوذ اور مختلف علاقوں میں شیعوں کی فریاد رسی و مدد کے لئے “احمد ابن حمزه قمی” جیسے افراد کو عہدوں کی ذمہ داری سنبھالنے کی اجازت دی تھی، یہاں تک کہ “نوح ابن دراج” جو امام (ع) دوستوں میں سے تھے یہ کچھ زمانے تک بغداد کے قاضی رہے اس کے بعد کوفہ کے قاضی بنے، بعض بزرگ اور مورد اعتماد شیعہ جیسے “محمد ابن ¬اسماعيل¬ ابن ¬بزيع نيشابوري” یہ خلفائے عباسی کے وزیروں میں شمار ہوتے تھے، یہ امام محمد تقی (ع) رابطہ رکھتے تھے، انہوں نے امام (ع)سے ایک پیراہن مانگا تاکہ مرنے کے بعداس سے انہیں کفن دیا جائے اور حضرت(ع) نے ان کی درخواست پوری کرتے ہوئے اپنا پیراہن ان کے پاس بھیج دیا۔
IT_024
افراد کے انتخاب کرنے میں امام (ع) کی فکری و سیاسی روش بالکل پوسیدہ اور پردہ راز میں رہتی تھی، یہاں تک کہ جب ابراہیم بن محمد کو خط لکھتے ہیں تو ان کو حکم دیتے ہیں کہ جب تک “یحیی بن ابی عمران” (امام (ع)کے صحابی) زندہ ہیں خط کو نہ کھولیں۔ چند سال کے بعد جب یحییٰ کا انتقال ہوتا ہے تو ابراہیم بن محمد خط کو کھولتے ہیں، دیکھتے ہیں کہ حضرت (ع)نے خط میں ان کو مخاطب کرکے لکھا ہے: جو کام اور ذمہ داریاں یحییٰ بن ابی عمران کے ذمہ تھیں اب سے وہ تمہارے ذمہ ہیں۔ یہ چیزیں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ حضرت(ع) بنی عباس کی حکومت کے پُرآشوب اور گھٹن کے حالات اور ماحول میں کس قدر اپنے ماننے والوں پر عنایت رکھتے تھے، تاکہ کسی کو ان کے نمائندوں کی جانشینی کی اطلاع نہ مل سکے۔
امام محمد تقی (ع)کے علمی مناظرے
امام محمدتقی (ع)سب سے پہلے امام ہیں کہ جو کمسنی میں منصب امامت پر فائز ہوئے۔ امام (ع)نے بہت سے مناظرےکئے ہیں جن میں سے بعض بڑےمشہور، زبردست اور عمدہ ہیں۔ ان مناظروں کے وجود میں آنے کا اصلی سبب یہ تھا کہ ایک طرف سے ان کی امامت کمسنی کی وجہ سے بہت سے شیعوں پر بطور کامل ثابت نہیں ہوئی تھی (اگرچہ شیعہ بزرگوں اور دانشمندوں کے نزدیک اس سلسلہ میں شیعہ عقیدہ کے مطابق کسی قسم کا شک و شبہ نہیں پایا جاتا تھا) اسی لئے اطمینان وسکون کی خاطر امتحان کی غرض سے لوگ آپ سے کافی سوالات کرتے تھے۔
IT_025
دوسری طرف سے اس زمانے میں فرقہ “معتزلہ”اپنی پوری قوت کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا تھا، یہ فرقہ مکمل طورپر رائج اور سرکاری مذہب ہوچکا تھا اور اس کا بڑا چرچا تھا، وقت کی حکومت بھی ان لوگوں کی حمایت کرتی تھی اور اپنی قدرت و طاقت اور دوسرے بہت سے حکومتی مادی و معنوی امکانات کو ان کے افکارکو بڑھاوا دینے اور اسے مضبوط کرنے کے لئے فراہم کرتی تھی، نیز دوسرے فرقوں کو نقصان پہنچانے، انہیں کمزور کرنے اور ان کے نفوذ کو ہر طرح سے روکنے کی کوشش کرتی تھی۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ معتزلی فرقہ کی فکر و سوچ کا انداز یہ تھا کہ وہ عقل پر بھروسہ و اعتماد کرتے تھے اور بشری خطا کے سلسلہ میں زیادہ روی سے کا لیتے تھے: معتزلین دینی مطالب و احکام کو اپنی عقل پر پرکھتے تھے، جس چیز کی عقل بطور صریح تائید کرتی تھی اسے قبول کرتے تھے اور دوسری باقی چیزوں کا انکار کرتے تھے، بنابر ایں امامت کے مقام و منصب پر کمسنی میں فائز ہونا، ان کی ظاہری عقل کے ترازو پر صحیح نہیں اترتا تھا اسی وجہ سے وہ لوگ سخت ترین اور پیچیدہ ترین سوالات ڈھونڈ کر لاتے تھے تاکہ اپنے خیال و گمان کے مطابق امام محمد تقی (ع)کو علمی میدان کے مقابلے میں شکست دے دیں۔
لیکن ان تمام علمی مناظروں اور بحثوں میں امام محمد تقی (ع)علم امامت کی روشنی میں محکم اور دنداں شکن جواب دے کر اپنی امامت کے متعلق تمام شکوک و شبہات کا ازالہ کر دیتے تھے اور اپنی امامت بلکہ اصل امامت کو ثابت کرتے تھے۔ اسی دلیل کی بناپر ان کے بعد حضرت امام علی نقی (ع)کی امامت (چونکہ آپ بھی کمسنی میں منصب امامت پر فائز ہوئے تھے) کے متعلق کوئی دشواری سامنے نہیں آئی، اس لئے کہ سبھی لوگوں پر واضح و روشن ہوگیا تھا کہ اس الٰہی منصب پر فائز ہونے میں کمسنی کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔
ذیل میں ان مناظروں میں کچھ مناظرے اور علم امام (ع)کی وسعت و بحر بیکراں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے
یحیى ابن اکثم سے امام (ع) کا مناظرہ
جس وقت عباسیوں نے مامون عباسی پر اپنی لڑکی کی شادی، امام محمدتقی (ع)سے کرنے کے متعلق اعتراض کیا کہ یہ نوجوان ہیں اور علم و دانش سے بہرہ مند نہیں ہیں جس کی وجہ سے مامون نے ان لوگوں سے کہا کہ تم لوگ خود ان کا امتحان لے لو۔
عباسیوں نے علماء اور دانشمندوں کے درمیان سے “یحییٰ بن اکثم”کو اس کی علمی شہرت کی وجہ سے چنا، مامون نے امام جواد (ع)کے علم و آگہی کو پرکھنے اور جانچنے کے لئے ایک جلسہ ترتیب دیا۔ اس جلسہ میں یحییٰ نے مامون کی طرف رخ کر کے کہا: اجازت ہے کہ میں اس نوجوان سے کچھ سوال کروں؟۔ مامون نے کہا : خود ان سے اجازت لو ۔
یحییٰ نے امام محمدتقی (ع)سے اجازت لی۔ امام (ع)نے فرمایا: یحیی! تم جو پوچھنا چاہو پوچھ لو ۔
یحیی نے کہا: یہ فرمایئے کہ حالت احرام میں اگر کوئی شخص کسی حیوان کا شکار کرلے تو اس کا کیا حکم ہے؟۔ امام محمدتقی(ع) اس کے جواب میں فرمایا: اے یحیی! تمہارا سوال بالکل مہمل ہے پہلے یہ بتاؤ، اس شخص نے شکار حل میں (حرم کے حدود سے باہر) کیا تھا یا حرم میں ؟، شکار کرنے والا مسئلہ سے واقف تھا یا جاہل؟ اس نے عمداً اس جانور کا شکار کیا تھا یا دھوکے سےقتل ہوگیا تھا؟ وہ شخص آزاد تھا یا غلام؟ شکار کرنے والا کمسن تھا یا بالغ؟ اس نے پہلی مرتبہ شکار کیا تھا یا اس کے پہلے بھی شکار کرچکا تھا؟ شکار پرندوں میں سے تھا یا غیر پرندہ ؟ شکار چھوٹا تھا یا بڑا جانور تھا؟ وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے؟ اس نے رات کو پوشیدہ طریقہ پر شکار کیا یا دن میں اعلانیہ طورپر؟، احرام عمرہ کا تھا یا حج کا؟۔جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائی جائیں گی اس وقت تک اس مسئلہ کا کوئی معین حکم نہیں بتایا جاسکتا۔
IT_026
امام محمدتقی(ع)نے جب مسئلہ کی یہ تمام فروعات بیان کی تو یحییٰ بن اکثم حیران وششدر رہ گیا، اس کے چہرہ سے ناتوانی اورشکستگی کے آثار ظاہر ہوگئے تھے امام(ع)کےسامنےاس کی زبان اس طرح لکنت کرنے لگی تھی اورگنگ ہوگئی تھی اس طرح کہ اس کی ناتوانی کا مشاہدہ تمام حاضرین نے کرلیا تھا۔
مناظرےکےختم ہونے کے بعد جب سبھی لوگ چلے گئے اور مجلس میں صرف خلیفہ کے قریبی لوگ باقی رہ گئے تو مامون نے امام محمدتقی(ع)کی طرف رخ کرکے عرض کیا: میں آپ پر قربان ہوجاؤں بہتر ہے کہ آپ حالت احرام میں شکار کرنے کی تمام شقوں کے احکام بیان فرمادیں تاکہ ہم لوگ ان سے استفادہ کریں۔
امام محمدتقی(ع)نے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ جو احکام تھے بیان فرمائے، حضرت نے (ع) نے فرمایا: اگر شخص احرام باندھنے کے بعد حل میں (حرم کے باہر) شکار کرے اور وہ شکار پرندہ ہو اور بڑا بھی ہو تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے، اور اگر شکار حرم میں کیا ہے تو اس کا کفارہ دو بکریاں ہیں، اور اگر کسی چھوٹے پرندہ کو حل میں شکار کیا ہے تو اس کا کفارہ دنبہ کا ایک بچہ ہے جو اپنی ماں کا دودھ چھوڑ چکا ہو، اور اگر حرم میں شکار کیا ہو تو اس پرندہ کی قیمت اور ایک دنبہ کفارہ دے گا اور اگر وہ شکار چوپایہ ہو تو اس کی کئی قسمیں ہیں اگر وہ وحشی گدھا ہے تو اس کا کفارہ ایک گائے ہے اور اگر شتر مرغ ہے تو ایک اونٹ اوراگر ہرن ہے تواس کا کفارہ ایک بکری ہے، یہ کفارہ اس وقت ہے جب شکارحل میں کیا ہو۔ لیکن اگر ان کا شکار حرم میں کیا ہےتو یہی کفارے دگنے ہوں جائیں گے اور اگر احرام حج کا تھا تو “منیٰ ” میں قربانی کرے گا،اور اگر احرام عمرہ کا تھا تو “مکہ” میں اس کی قربانی کرے گا اور شکارکے کفاروں میں عالم و جاہل دونوں برابر ہیں اور عمدا شکار کرنے میں(کفارہ کے واجب ہونے کے علاوہ)گنہگاربھی ہے،لیکن بھولے سے شکارکرنے میں گناہ نہیں ہے، آزاد انسان اپنا کفارہ خود دے گا اور غلام کا کفارہ اس کا مالک دے گا، چھوٹے بچے پر کوئی کفارہ نہیں ہے اوربالغ پر کفارہ دینا واجب ہے اور جوشخص اپنے اس فعل پر نادم ہوگا وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا لیکن اگر اس فعل پر نادم نہیں ہے تو اس پر عذاب ہوگا۔
IT_027
مامون نے کہا:احسنت اے ابوجعفر! خدا آپ کو جزائے خیر دے، بہتر ہے آپ بھی یحیى بن ¬اکثم سے کچھ سوالات کرلیں جس طرح اس نے آپ (ع)سے سوال کیا ہے۔ امام (ع)نے یحیی سے کہا: میں سوال کروں؟ یحیی نے کہا: اس کا اختیار آپ کو ہے، میں آپ پر قربان ہوجاؤں،اگر مجھ سے ہوسکا تو اس کا جواب دوں گا ورنہ آپ سے استفادہ کروں گا۔
امام محمد تقی (ع)نے سوال کیا
اس شخص کےبارے میں کیا کہتے ہو جس نے صبح کو ایک عورت کی طرف نظر کی تو وہ اس پر حرام تھی، دن چڑھے حلال ہوگئی، پھر ظہر کے وقت حرام ہوگئی،عصرکے وقت پھر حلال ہوگئی، غروب آفتاب کے وقت پھر حرام ہوگئی، عشاءکے وقت پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس پر حرام ہوگئی، صبح کے وقت پھر حلال ہوگئی، بتاؤ یہ کیسی عورت ہے کہ ایک ہی دن میں اتنی دفعہ اس شخص پر کس طرح حرام و حلال ہوتی رہی؟۔
امام(ع)کےسوال کو قاضی القضاة یحیی بن اکثم سن کر مبہوت ہوکر کہنے لگا خدا کی قسم میں اس سوال کا جواب نہیں جانتا اور اس عورت کے حلال و حرام ہونے کا سبب بھی نہیں معلوم ہے، اگر مناسب ہو تو آپ اس کے جواب سے ہمیں بھی مطلع فرمائیں۔
امام (ع)نے فرمایا: وہ عورت کسی کی کنیز تھی، اس کی طرف صبح کے وقت ایک اجنبی شخص نے نظر کی تو وہ اس کے لئے حرام تھی، دن چڑھے اس نے وہ کنیز خرید لیا، اس پر حلال ہوگئی، ظہر کے وقت اس کو آزاد کردیا، وہ حرام ہوگئی، عصرکے وقت اس نے نکاح کرلیا پھر حلال ہوگئی، مغرب کے وقت اس سے “ظہار” کیا۔ جس کی وجہ سے پھر حرام ہوگئی، عشاءکے وقت ظہار کا کفارہ دے دیا، پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس شخص نے اس عورت کو طلاق رجعی دے دی، جس کی بناپر پھر حرام ہوگئی اور صبح کے وقت اس نے رجوع کرلیا پھر وہ عورت اس پر حلال ہوگئی۔
امام (ع)کا فیصلہ اور درباری فقہاء کی شکست
امام محمدتقی علیہ السلام کبھی مناظروں اور کبھی مناظروں کے علاوہ دوسرےطریقوں سے درباری قاضیوں اورفقہاء کی جہالت کو واضح اورعلم امامت کی روشنی میں ان پر اپنی برتری کو ثابت کرتے تھے اور اس طریقہ سے اصل مامت پر اعتقاد رکھنے کو عام ذہنوں میں ثابت کرتے تھے ۔ انہیں فتوؤں میں سے آپ(ع)کا ایک فتویٰ چورکے ہاتھ کاٹنے کےمتعلق ہےجس کی تفصیل اس طرح ہے
زرقان۔ جس کی “ابن ابی داود”۔ سے بڑی دوستی اور الفت تھی،کہتے ہیں: ایک روز “ابن ابی داؤد”معتصم کی مجلس سےباہر آیا تو بہت ہی افسردہ اور رنجیدہ تھا، میں نے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا: کاش میں بیس سال پہلے ہی مرگیا ہوتا اور آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا!
میں نے پوچھا: کیوں کیا ہوا؟
اس نے کہا: اس مصیبت سے جو آج معتصم کی مجلس میں ابوجعفر (امام محمدتقی(ع))کی بناپر میرے سر پر ٹوٹی ہے۔
میں نے کہا واقعہ کیا ہے؟۔
اس نے کہا: ایک شخص نے چوری کا اعتراف کیا اور خلیفہ معتصم سے حدود کے جاری کرنے اور اپنے پاک ہونے کی درخواست کی۔ خلیفہ نے تمام فقہاء کو اکٹھا کیا اور “محمدبن علی (ع)”کوبھی بلایا اور ہم سے پوچھا: چور کا ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے؟۔
میں نے کہا:گٹے سے ہاتھ کاٹا جائے۔
اس نے کہا: اس کی دلیل کیا ہے؟۔
میں نے کہا:کیونکہ آیت تیمم میں” فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَ أَيْدِيكُمْ”۔ تم اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرو” ہاتھ گٹے تک ہاتھ مراد لیاگیا ہے۔
فقہاءکا ایک گروہ اس مسئلہ میں میری بات کاموافق تھا اورکہتا تھا کہ چور کا ہاتھ گٹے تک کاٹا جائے، لیکن دوسرےگروہ نے کہا:کہنی سے ہاتھ کاٹا جائے اور جب معتصم نے ان کی دلیل پوچھی تو انہوں نے کہا: آیت وضو میں ہے ” فاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ”۔ اپنے چہروں اور ہاتھوں کو کہنی تک دھوئیں” ہاتھ سے مراد کہنی تک ہے۔
اس کے بعدمعتصم نے محمد بن علی (ع)کی طرف رخ کرکے پوچھا: اس مسئلہ میں آپ کا نظریہ کیا ہے؟۔
انہوں نے کہا: ان لوگوں نے اپنے نظریات بیان کئے ہیں مجھے اس مسئلہ سے دور رکھو ۔
معتصم نے اصرار کیا اورقسم دی کہ اپنی نظر کو بیان کریں ۔
محمد بن علی(ع) نے کہا: جب تم نےقسم دے دی ہےتو میں اپنےنظریہ کوبیان کرتا ہوں، یہ سب غلطی پر ہیں کیونکہ چور کی صرف انگلیاں کاٹی جائیں اور بقیہ ہاتھ باقی رہے گا۔
معتصم نے کہا: اس کی دلیل کیا ہے؟۔

انہوں نے کہا:کیونکہ رسول خدا (ص)نے فرمایا: سجدہ بدن کے سات اعضاء پر کیا جاتا ہے: پیشانی، دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں، دونوں زانو، دونوں پیروں کے انگوٹھے۔ اس بناپر اگر چور کا ہاتھ کہنی یا گٹے سے کاٹا جائے گا تو نماز کا سجدہ کرنے کےلئے ان کے پاس ہاتھ باقی نہیں رہ جائے گا اور خداوند عالم نے فرمایا ہے
” وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ۔ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَداً “۔ اورمساجد(سات اعضاءکہ جو سجدہ میں زمین پر ہوتے ہیں)سب اللہ کےلئے ہیں لہذا اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا۔ اور جو چیز خدا کےلئے ہے وہ نہیں کاٹی جاتی۔
ابن ابی داؤد نے کہا:معتصم نے محمد بن علی(ع)کے جواب کو قبول کرلیا اورحکم دیا کہ چور کی انگلیاں کاٹی جائیں اوربھرے مجمع میں ہماری بے عزتی ہوئی! اور میں نے وہیں پر شرمساری و اندوہ کی وجہ سے موت کی تمنا کی!۔

امام محمد تقی (ع)کے زمانے کے خلفاء
امام محمد تقی(ع) کی تبلیغ اسلام و احکام کی مشکلات کے متعلق آپ (ع)کے معاصر دو عباسی خلفاء کو نظر میں رکھنا چاہئے خاص طورپر مامون عباسی جس کے بارے میں ابن ندیم کہتا ہے: وہ تمام خلفاء(عباسی) میں علم فقہ و کلام(عقائد)میں سب سے زیادہ علم رکھتا تھا۔
IT_001
امام محمد تقی(ع)کی امامت کا ۱۷/سترہ سال کا زمانہ دو عباسی خلیفہ مامون اور معتصم کے دور حکومت میں تھا، پندرہ سال مامون کا زمانہ ۔۔ ۲۰۳ ہجری، یعنی امام رضا علیہ السلام کی شہادت سے لے کر مامون کی موت تک ۲۱۸ ہجری۔۔ اور دو سال معتصم عباسی کی حکومت کا زمانہ (مامون کی موت ۲۱۸ ہجری سے لے کر ۲۲۰ ہجری تک)امام محمدتقی (ع)کے پندرہ سال کا زمانہ آپ (ع)کے والد بزرگوار کے حالات و شرائط کی طرح سخت تھا کیونکہ وہ زمانہ خلیفہ عباسی کی چالاک ترین اور عالم
ترین فرد کے زیر نگرانی میں تھا
امام محمد تقی(ع)کی شہادت
امام محمد تقی(ع)کو کس طرح شہید کیا گیا، اس سلسلہ میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں یہاں پر ان میں سے ایک نظریہ کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے
IT_002
ظالم خلیفہ معتصم عباسی ۔ مامون کا بھائی، ام الفضل مامون کی بیٹی کا چچا۔ مسلسل امام محمد تقی (ع)کے قتل کی سازش رچ رہا تھا اور اس کام میں وہ ام الفضل کے ساتھ ہوگیا تھا کہ امام(ع)کو زہر دے، اس لئے کہ معتصم کومعلوم ہوگیا تھا کہ ام الفضل حضرت(ع) سے منحرف ہوگئی ہے اور بڑی شدّت سے امام (ع)کے مخالف ہے۔ اسی وجہ سے ام الفضل نے معتصم کی درخواست کا مثبت جواب دیا اور زہر کو انگور میں بجھا کر امام (ع)کے سامنے رکھا، جیسے ہی حضرت (ع)نے انگور نوش فرمایا،ام الفضل نے پشیمان ہوکر رونا شروع کردیا، امام (ع)نے فرمایا: تمہارے رونے کا سبب کیا ہے؟ (جب اس نے بتایا تو امام(ع)نے کہا)خدا کی قسم، پروردگار تم کو رحم میں ایسی درد سے دوچار کرے کہ جس کا جبران نہ ہوسکے اور ایسی بلاء و مصیبت میں گرفتار کرے کہ جو چھپانے کے لائق نہ ہو۔ اسی نفرین کی وجہ سے ام الفضل بیمار ہوکر واصل جہنم ہوئی۔
IT_005
امام محمد تقی (ع)شہر بغداد میں ذی القعدہ کے مہینہ ۲۲۰ ہجری میں ۲۵/پچیس سال کی عمر میں شہادت کے درجہ پر فائز ہوئے۔ اور بغداد میں کاظمین نامی جگہ پر اپنے جدبزرگوار امام موسیٰ کاظم (ع)کے جوار میں دفن ہوئے۔

سامرہ: امام عسکری (ع) کے روضہ پر ہونے والے بم دھماکہ میں ایک پاکستانی زائر شہید

WP_03SN_BU

کل عراق کے شہر سامرا میں حرم عسکرین کے نزدیک ہونے والے بم دھماکے میں پاکستانی زائر تحسین حیدر شھید ہوگئے تھے انکی تدفین وادی السلام نجف میں کی گئی، واضع رہے کہ عراق میں داعش کے دہشتگردوں نے ملک میں خونریزی کا ایک بازار گرم کیا ہواہے، جنت کی حوروں کی لالچ میں یہ معصوم عوام پر جا پھٹتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت امام نقی (علیہ اسلام) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0001_Title2

حضرت امام علی نقی (علیہ السلام)، حضرت امام محمد تقی((علیہ السلام) کے فرزند اور سلسلہ امامت کے دسویں امام ہیں

Kazmain_01

نام ونسب
اسم مبارک علی (علیہ السّلام) , کنیت ابوالحسن (علیہ السّلام) اور لقب نقی (علیہ السّلام) ہے چونکہ آپ سے پہلے حضرت علی مرتضٰی (علیہ السّلام) اور امام رضا (علیہ السّلام) کی کنیت ابو الحسن ہو چکی تھی- اس لئے آپ کو “الحسن ثالث” کہا جاتا ہے والدہ معظمہ آپ کی سمانہ خاتون تھیں

S_01

ولادت اور نشوونما
پانچ (5)رجب 214 ہجری کو مدینہ منورہ میں ولادت ہوئی- صرف چھ(6) برس تک اپنے والد بزرگوار کے زیر سایہ زندگی بسر کی-اس کے بعد اس کمسنی کے عالم میں آپ اپنے والد بزرگوار سے جدا ہو گئے
IMG_1171
امام محمد تقی (علیہ السّلام) کو عراق کا سفر درپیش ہوا اور وہیں انتیس (29)ذیعقد 220 ہجری میں حضرت امام تقی (علیہ السّلام) کی شہادت ہو گئی- جس کے بعد امامت کی ذمہ داریاں امام علی نقی (علیہ السّلام) کے کاندھے پر آ گئیں- اس صورت میں سوائے قدرت کی آغوش تربیت کے اور کون سا گہوارہ تھا جسے آپ کے علمی اور عملی کمال کی بلندیوں کا مرکز سمجھا جا سکے

S_02

انقلابات سلطنت
حضرت امام علی نقی (علیہ السّلام) کے دور امامت میں معتصم کا انتقال ہوا اور واثق باللہ کی حکومت شروع ہوئی۔
S_03
۔236 ہجری میں واثق دنیا سے رخصت ہوا اور مشہور ظالم و سفاک دشمن اہل بیت (علیہ السّلام) متوکل تخت حکومت پر بیٹھا- 250 ہجری میں متوکل ہلاک ہوگیا۔
S_04
اور منتصر باللہ خلیفہ تسلیم کیا گیا- جو صرف چھ مہینہ سلطنت کرنے کے بعد مر گیا،اور مستعین بالله کی سلطنت قائم ہوئی .353 ہجری میں مستعین کو حکوت سے دست بردار ہو کر جان سے بھی ہاتھ دھونا بیٹھا اور معتز بالله بادشاہ ہوا . یہی امام علی نقی (علیہ السّلام) کے زمانے کااخری بادشاہ ہوا
/div>
S_05

الام ومصائب
معتصم نے خواہ اپنی ملکی پریشانیوں کی وجہ سے جواسے رومیوں کی جنگ اور بغداد کے دارالسلطنت میں عباسیوں کے فساد وغیرہ کی وجہ سے درپیش تھیں اور خواہ امام علی نقی (علیہ السّلام) کی کمسنی
کاخیال کرتے ہوئے حضرت نقی (علیہ السّلام) سے کوئی تعرض نہیں کیا
IMG_1168
اور آپ سکون واطمینان کے ساتھ مدینہ منورہ میں اپنے فرائض پورے کر نے میں مصروف رہے . معتصم کے بعد واثق نے بھی آپ کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھایا . مگر متوکل کاتخت سلطنت پر بیٹھنا تھا کہ امام علی نقی (علیہ السّلام) پر تکالیف کا سیلاب امڈ ایا۔
IMG_1175
یہ واثق کابھائی او معتصم کابیٹا تھا، اور الِ رسول کی دشمنی میں اپنے تمام اباواجداد سے بڑھا ہوا تھا . اس سولہ برس میں جب سے امام علی نقی (علیہ السّلام) منصب امامت پر فائز ہوئے تھے آپ کی شہرت تمام مملکت میں پھیل چکی تھی اور تعلیمات اہل بیت علیہ السّلام کے پروانے اس شمع ہدایت پر برابر ٹوٹ رہے تھے۔
IMG_1177
ابھی متوکل کی سلطنت کو چار برس ہوئے تھے کہ مدینے کے حکام عبدالله بن حاکم نے امام علیہ السّلام سے مخالفت کا اغاز کیا . پہلے تو خود حضرت کو مختلف طرح کی تکلیفیں پہنچائیں پھر متوکل کو آپ کے متعلق اسی طرح کی باتیں لکھیں جیسی سابق سلاطین کے پاس آپ کے بزرگوں کی نسبت ان کے دشمنوں کی طرف سے پہنچائی جاتی تھیں . مثلاً یہ کہ حضرت نقی (علیہ السّلام) اپنے گردو پیش اسباب سلطنت جمع کررہے ہیں،
IMG_1178
آپؑ کے ماننے والے اتنی تعداد میں بڑھ گئے ہیں کہ آپ جب چاہیں حکومت کے مقابلہ کے لیے کھڑے ہوسکتے ہیں- حضرت کو اس تحریرکی بروقت اطلاع ہوگئی اور آپ نے اتمام حجت کے طور پراسی کے ساتھ متوکل کے پاس اپنی جانب سے ایک خط تحریر فرما دیا جس میں حال مدینہ کی اپنے ساتھ ذاتی مخالفت کا تذکرہ اور اس کی غلط بیانیوں کا اظہار فرمایا تھا- متوکل نے ازاراہ سیاست امام علی نقی (علیہ السّلام) کے خط کو وقعت دیتے ہوئے مدینہ کے اس حاکم کو معزول کر دیا.
IMG_1179
مگر ایک فوجی رسالے کو یحیٰی بن ہرثمہ کی قیادت میں بھیج کر حضرت (علیہ السّلام) سے بظاہر دوستانہ انداز میں باصراریہ خواہش کی کہ آپ مدینہ سے درالسلطنت سامرا تشریف لا کر کچھ دن قیام فرمائیں اور پھر واپس مدینہ تشریف لے جائیں- امام (علیہ السّلام) اس التجا کی حقیقت سے خوب واقف تھے اور جانتے تھے یہ نیاز مندانہ دعوت تشریف
آوری حقیقت میں جلا وطنی کا حکم ہے مگر انکار کا کوئی حاصل نہ تھا-
IMG_1180

جب کہ انکار کے بعد اسی طلبی کے انداز کا دوسری شکل اختیار کر لینا یقینی تھا- اور اس کے بعد روانگی ناگزیر تھی- بے شک مدینہ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہونا آپ کے قلب کے لئے ویسا ہی تکلیف دہ ایک صدمہ تھا جسے اس کے پہلے حضرت امام حسین (علیہ السّلام)، امام موسٰی کاظم (علیہ السّلام)، امام رضا (علیہ السّلام) اور امام محمد تقی (علیہ السّلام) آپ کے مقدس اور بلند مرتبہ اجداد برداشت کر چکے تھے- وہ اب آپ کے لئے ایک میراث بن چکا تھا- پھر بھی دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ مدینہ سے روانگی کے وقت آپ کے تاثرات اتنے شدید تھے جس سے احباب و اصحاب میں ایک کہرام برپا تھا- متوکل کا عریضہ بارگاہ امام (علیہ السّلام) میں بڑے اخلاص اور اشتیاق قدم بوسی کا مظہر تھا- فوجی دستہ جو بھیجا گیا تھا وہ بظاہر سواری کے تزک و احتشام اور امام (علیہ السّلام) کی حفاظت کا ایک سامان تھا مگر جب حضرت (علیہ السّلام) سامرہ میں پہنچ گئے اور متوکل کو اس کی اطلاع دی گئی تو پہلا ہی اس کا افسوسناک رویہ یہ تھا کہ بجائے امام (علیہ السّلام) کے استقبال یا کم از کم اپنے یہاں بلا کر ملاقات کرنے کے اس نے حکم دیا کہ حضرت کو »خاف الصعالیک« میں اتارا جائے,اس لفظ کے معنی ہی ہیں »بھیک مانگنے والے گداگروں کی سرائے« اس سے جگہ کی نوعیت کا پورے طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے یہ شہر سے دور ویرانے میں ایک کھنڈر تھا- جہاں امام علیہ السّلام کو فروکش ہونے پر مجبور کیا گیا- اگرچہ یہ مقدس حضرات خود فقرائ کے ساتھ ہم نشینی کو اپنے لئے ننگ و عار نہیں سمجھتے تھے اور تکلیفات ظاہری سے کنارہ کش رہتے تھے مگر متوکل کی نیت تو اس طرز عمل سے بہرحال تحقیر کے سوااور کوئی نہیں تھی- تین دن تک حضرت کا قیام یہاں رہا- اس کے بعد متوکل نے آپ کو اپنے حاجب رزاقی کی حراست میں نظر بند کر دیا اور عوام کے لئے آپ سے ملنے جلنے کو ممنوع قرار دیا- وہی بے گناہی اور حقانیت کی کشش جو امام موسٰی کاظم علیہ السّلام کی قید کے زمانہ میں سخت سے سخت محافظین کو کچھ دن کے بعد آپ کی رعایت پر مجبور کر دیتی تھی اسی کا اثر تھا کہ تھوڑے ہی عرصہ بعد رزاقی کے دل پر امام علی نقی (علیہ السّلام) کی عظمت کا سکہ قائم ہو گیا اور وہ آپ کو تکلیف دینے کے بجائے آرام و راحت کے سامان بہم پہنچانے لگا مگر یہ بات زیادہ عرصہ تک متوکل سے چھپ نہیں سکتی تھی- اسے علم ہو گیا اور اس نے رزاقی کی قید سے نکل کر حضرت (علیہ السّلام) کو ایک دوسرے شخص سعید کی حراست میں دے دیا- یہ شخص بے رحم اور امام (علیہ السّلام) کے ساتھ سختی برتنے والا تھا- اسی لئے اس کے تبادلے کی ضرورت نہیں پڑی اور حضرت پورے بارہ برس اس کی نگرانی میں مقید رہے- ان تکالیف کے ساتھ جو اس قید میں تھے حضرت (علیہ السّلام) شب و روز عبادت الٰہی میں بسر کرتے تھے- دن بھر روزہ رکھنا اور رات بھر نمازیں پڑھنا معمول تھا- آپکا جسم کتنے ہی قید و بند میں رکھا گیا ہو مگر آپ کا ذکر چار دیواری میں محصور نہیں کیا جا سکتا تھا- نتیجہ یہ تھا کہ آپ تو تنگ و تاریک کوٹھڑی میں مقید تھے مگر آپ کا چرچہ سامرے بلکہ شاید عراق کے ہر گھر میں تھا اور اس بلند سیرت و کردار کے انسان کو قید رکھنے پر خلق خدا میں متوکل کے مظالم سے نفرت برابر پھیلتی جا رہی تھی- اب وہ وقت ایا کہ فتح بن خاقان باوجود الِ رسول سے محبت رکھنے کے صرف اپنی قابلیت اپنے تدبر اور اپنی دماغی وعملی صلاحیوتوں کی بنا پر متوکل کاوزیر ہوگیا، تو اس کے کہنے سننے سے متوکل نے امام علی نقی (علیہ السّلام) کی قیدکو نظر بندی سے تبدیل کردیا اور آپ کو ایک مکان دے کر مکان تعمیر کرنے اور اپنے ذاتی مکان میں سکونت کی اجازت دے دی مگر اس شرط سے کہ آپ سامرے سے باہر نہ جائیں اور سعید آپ کی نقل وحرکت اور مراسلات وتعلقات کی نگرانی کرتا رہے گا . اس دور میں بھی امام علیہ السّلام کااستغنائے نفس دیکھنے کے قابل تھا، باوجود دارلسلطنت میں مستقل طور پر قیام کے نہ کبھی متوکل کے سامنے کوئی درخواست پیش کی نہ کبھی کسی قسم کے ترحم یا تکریم کی خواہش کی وہی عبادت وریاضت کی زندگی جو قید کے عالم میں تھی۔ ا س نظر بندی کے دور میں بھی رہی۔ جو کچھ تبدیلی ہوئی تھی وہ ظالم کے رویّہ میں تھی . مظلوم کی شان جیسے پہلے تھی ویسی ہی اب بھی قائم رہی۔ اس زمانے میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ امام کو بالکل ارام وسکون کی زندگی بسر کرنے دی جاتی . مختلف طرح کی تکالیف سے آپ کے مکان کی تلاشی لی گئی کہ وہاں اسلحہ ہیں یا ایسے خطوط ہیں جن سے حکومت کی مخالفت کاثبوت ملتا ہے حالانکہ ایسی کوئی چیز ملی نہیں مگر یہ تلاشی ہی ایک بلند اور بے گناہ انسان کے لیے کتنی باعث تکلیف چیز ہے اس سے بڑھ کر یہ واقعہ کہ دربار شاہی میں عین اس وقت آپ کی طلبی ہوتی ہے جب کہ شراب کے دور چل رہے ہیں . متوکل اور تمام حاضرین دربار طرب ونشاط میں غرق ہیں . اس پر طرہ یہ کہ سرکش, بے غیرت اور جاہل بادشاہ حضرت علیہ السّلام کے سامنے جامِ شراب بڑھا کر پینے کی درخواست کرتا ہے . شریعت اسلام کے محافظ معصوم (علیہ السّلام) کو اس سے جو تکلیف پہنچ سکتی ہے وہ تیر وخنجر سے یقیناً زیادہ ہے مگر حضرت نقی(علیہ السّلام) نے نہایت متانت اور صبروسکون کے ساتھ فرمایا کہ “مجھے ا س سے معاف کیجئے , میرا میرے اباواجداد کاخون اور گوشت اس سے کبھی مخلوط نہیں ہوا ہے.” اگر متوکل کے احساسات میں کچھ بھی زندگی باقی ہوتی تو وہ اس معصومانہ مگر صر شکوہ جواب کا اثر کرتا مگر اس نے کہا کہ اچھا یہ نہیں تو کچھ گانا ہی سنائیے۔حضرت نقی (علیہ السّلام) نے فرمایا میں اس فن سے بھی واقف نہیں ہوں .,, اخر اس نے کہا کہ آپ کو کچھ اشعار جس طریقے سے بھی آپ چاہیں بہرحال پڑھنا ضرور پڑھیں گے . کوئی جذبات کی رو میں بہنے والا انسان ہوتا تو اس خفیف الحرکات بادشاہ کے اس حقارت انگیز یاتمسخر امیز برتاؤ سے متاثر ہو کر شاید اپنے توازن دماغی کو کھو دیتا مگر وہ کوہ “حلم ووقار” امام (علیہ السّلام( کی ہستی تھی جو اپنے کردار کو فرائض کی مطابقت سے تکمیل تک پہنچانے کی ذمہ دارتھی ,منہیات کے دائرہ سے نکل کر جب فرمائش اشعار سنانے تک پہنچی تو امام (علیہ السّلام) نے موعظہ وتبلیغ کے لیے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اپنے دل سے نکلی ہوئی پرُ صداقت اواز سے یہ اشعار پڑھنا شروع کردئے جنھوںنے محفل طرب میں مجلس وعظ کی شکل پیدا کردی . یا تو اعلٰی قلل الاجبال تحرسھم آرہے پہاڑ کی چوٹی پہ پہرے بٹھلا کر واستنز لوا بعد عز من معاقلھم بلند قلعوں کی عزت جو پست ہو کے رہی نادا ہم صارخ من بعد ماد فنوا صدا یہ ان کو دی ہاتف نے بعد دفن لحد این الوجوہ التی کانت مجعبة کہاں وہ چہرے ہیں جو تھے ہمیشہ زیر نقاب فافصح القبر عنھم حین سائلھم زبان حال سے بولے جواب میں مدفن قد طال ما اکلوا فیھا و ہم شربوا غذائیں کھائیں شرابیں جو پی تھیں حدے سوا غلب الرجال فما اغنتھم القلل بہادروں کی حراست میں بچ سکے نہ مگر الٰی مقابر ہم یا بکسما نزلوا تو کنج قبر میں منزل بھی کیا بری پائی این الاسیرة والتیجان والحلل کہاں ہیں تخت, وہ تاج اور وہ لباس جسد من دونھا تضرب الاستار و الکلل غبار جن پہ کبھی آنے دیتے تھے نہ حجاب تللک الوجوہ علیھا ادود تنتقل وہ رخ زمین کے کیڑوں کا بن گئے مسکن فاصبحوا بعد طول الاکل قد اکلوا نتیجہ اس کا ہے خود آج بن گئے وہ غذا اشعار کچھ ایسے حقیقی تاثرات کے ساتھ امام علیہ السّلام کی زبان سے ادا ہوئے تھے کہ متوکل کے عیش ونشاط کی بساط الٹ گئی۔ شراب کے پیالے ہاتھوں سے چھوٹ گئے اور تمام مجمع زارو قطار رونے لگا۔ یہاں تک کہ خود متوکل ڈاڑھیں مار مار کر بے اختیار رو رہا تھا۔ جوں ہی ڈارا ناموقوف ہوا اس نے امام (علیہ السّلام) کو رخصت کر دیا اور آپ اپنے مکان پر تشریف لے گئے . ایک اورنہایت شدید روحانی تکلیف جو امام علیہ السّلام کو اس دور میں پہنچی وہ متوکل کے تشدّد احکام تھے جو نجف اور کربلا کے زائرین کے خلاف ا س نے جاری کیے۔ اس نے یہ حکم دان تمام قلم رو حکومت میں جاری کردیا کہ کوئی شخص جناب امیر (علیہ السّلام) اور امام حسین (علیہ السّلام) کے روضوں کی زیارت کو نہ جائے جو بھی اس حکم کی مخالفت کرے گا اس کا خون حلال سمجھا جائے گا- اتنا ہی نہیں بلکہ اس نے حکم دیا کہ نجف اور کربلا کی عمارتیں بالکل گرا کر زمین کے برابر کردی جائیں۔ تمام مقبرے کھود ڈالے جائیں اور قبر امام حسین (علیہ السّلام) کے گرد وپیش کی تمام زمین پر کھیت بودیئے جائیں . یہ ناممکن تھا کہ زیارت کے امتناعی احکام پر اہل بیت رسول کے جان نثار اسانی کے ساتھ عمل کرنے کے لیے تیار ہوجاتے . نتیجہ یہ ہوا کہ اس سلسلہ میں ہزاروں بے گناہوں کی لاشیں خاک وخون میں تڑپتی ہوئی نظر آئیں۔ کیا اس میں شک ہے کہ ان میں سے ہر ایک مقتول کا صدمہ امام (علیہ السّلام) کے دل پر اتنا ہی ہوا تھا جتنا کسی اپنے ایک عزیز کے بے گناہ قتل کیے جانے کاحضرت نقی(علیہ السّلام) کو ہوسکتا تھا۔ پھر آپ تشدّد کے ایک ایسے ماحول میں گھیر رکھے گئے تھے کہ آپ وقت کی مناسبت کے لحاظ سے ان لوگوں تک کچھ مخصوص ہدایات بھی نہیں پہنچاسکتے تھے۔ جو ان کے لیے صحیح فرائض شرعیہ کے ذیل میں اس وقت ضروری ہوں یہ اندوہناک صورتِ حال ایک دوبرس نہیں بلکہ متوکل کی زندگی کے اخری وقت تک برابر قائم رہی۔ اور سنیئے کہ متوکل کے دربار میں حضرت امیر المومنین علی (علیہ السّلام) بن ابی طالب (علیہ السّلام) کی نقلیں کی جاتی تھی اور ان پر خود متوکل اور تمام اہل دربار ٹھٹے لگاتے تھے . یہ ایسا اہانت امیز منظر تھا کہ ایک مرتبہ خود متوکل کے بیٹے سے رہا نہ گیا . اس نے متوکل سے کہا کہ خیر آپ اپنی زبان سے حضرت علی (علیہ السّلام) کے بارے میں کچھ الفاظ استعمال کریں مگر جب آپ کو ان کا عزیز قرار دیتے ہیں تو ان کم بختوں کی زبان سے حضرت علی (علیہ السّلام) کے خلاف ایسی باتوں کو کیونکر گوارا کرتے ہیں اس پر بجائے کچھ اثر لینے کے متوکل نے اپنے بیٹے کافحش امیز تمسخر کیا اور دو شعر نظم کرکے گانے والوں کو دئیے جس میں خود اس کے فرزند کے لیے ماں کی گالی موجود تھی . گویّے ان شعروں کو گاتے تھے اور متوکل قہقے لگاتا تھا اسی دور کا ایک واقعہ بھی کچھ کم قابل افسو س نہیں ہے ابن السکیت بغدادی علم نحوولغت کے امام مانے جاتے تھے اور متوکل نے اپنے دو بیٹوں کی تعلیم کے لیے انھیں مقرر کیا تھا . ایک دن متوکل نے ان سے پوچھا کہ تمھیں میرے ان دونوں بیٹوں سے زیادہ محبت ہے یا حسن علیہ السّلام وحسین علیہ السّلام سے ابن السکیت محبت اہل بیت (علیہ السّلام) رکھتے تھے اس سوال کو سن کر بیتاب ہوگئے اور انھوں نے متوکل کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر بے دھڑک کہ دیا کہہ حسن (علیہ السّلام) وحسین (علیہ السّلام) کا کیا ذکر،مجھے تو علی (علیہ السّلام) کے غلام قمبررض کے ساتھ ان دونوں سے کہیں زیادہ محبت ہے۔اس جواب کا سننا تھا کہ متوکل غصّے سے بیخود ہوگیا , حکم دیا کہ ابن السکیت کی زبان گدی سے کھینچ لی جائے۔ یہی ہو اور اس طرح یہ ال ُ رسول کے فدائی درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ان واقعات کابراہ راست جسمانی طور پر حضرت امام علی نقی (علیہ السلام) سے تونہ تھا مگر بخدا ان کی ہر ہر بات ایک تلوار کی دھار تھی جو گلے پر نہیں دل پر چلا کرتی تھی، متوکل کاظالمانہ رویّہ ایسا تھا جس سے کوئی بھی دور یا نزدیک کا شخص ا س سے خوش یامطمئن نہیں تھا۔ حدیہ ہے کہ اس کی اولاد تک اس کی جانی دشمن ہوگئی تھی۔ چنانچہ اسی کے بیٹے منتصر نے ا س کے بڑے مخصوص غلام باغر رومی کو ملا کر خود متوکل ہی کی تلوار سے عین اس کی خواب گاہ میں اس کو قتل کرادیا۔ جس کے بعد خلائق کو اس ظالم انسان سے نجات ملی اور منتصرکی خلافت کا علان ہوگیا۔ منتصر# نے تخت حکومت پر بیٹھتے ہی اپنے باپ کے متشد انہ احکاکم کو یکلخت منسوخ کردیا. نجف اور کربلا زیارت کے لیے عام اجازت دے دی اور ان مقدس روضوں کی کسی حد تک تعمیر کرادی۔ امام علی نقی (علیہ السّلام) کے ساتھ بھی اس نے کسی خاص تشدد کا مظاہرہ نہیں کی مگر منتصر کی عمر طولانی نہیں ہوئی . وہ چھ مہینہ کے بعد دنیا سے اٹھ گیا منتصر کے بعد مستعین کی طرف سے امام (علیہ السّلام) کے خلاف کسی خاص بدسلوکی کا برتاوؤ نظر نہیںاتا۔

شہادت حضرت امام نقی (علیہ السلام)۔
امام نقی(علیہ السّلام) نے چونکہ سامرہ میں مکان بنا کر مستقل قیام اختیار فرمالیا تھا۔ اس لئے یا تو خود آپ ہی نے مناسب نہ سمجھا یا پھر ان بادشاہوں کی طرف سے آپ کے مدینہ واپس جانے کو پسند نہیں کیا گیا ہو . بہر حال جو بھی وجہ ہو قیام آپ کا سامرہ ہی میں رہا۔ اتنے عرصے تک حکومت کی طرف سے مزاحمت نہ ہونے کی وجہ سے علوم اہلبیت (علیہ السّلام) کے طلب گارذرا اطمینان کے ساتھ کثیر تعداد میںاپ سے استفادہ کے لیے جمع ہونے لگے جس کی وجہ سے مستعین کے بعد معتز کو پھر آپ سے صر خاش پیدا ہوئی اور حاکم وقت کے زہر نے آپ کی زندگی ہی کاخاتمہ کردیا