فرانس سے مل کر دہشت گردی کی جنگ لڑیں گے: شاہ سلمان
سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے فرانسیسی صدر فرانسو اولاند سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا ہے اور گذشتہ جمعہ کو پیرس میں مختلف مقامات پر ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کی شدید مذمت کی ہے۔سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی”واس” کے مطابق شاہ سلمان نے دہشت گردی کے واقعے میں فرانس میں ہونے والے قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی لعنت ایک ناسور ہے اور ہم سب مل کر اس کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔دونوں رہ نمائوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں باہمی تعاون مزید مستحکم اور مضبوط کرنے سے اتفاق کیا۔ شاہ سلمان نے فرانسیسی صدر سے کہا کہ دہشت گردی کی تمام شکلوں کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔
دنیا کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا ہے۔ دہشت گرد پوری دنیا کے امن واستحکام کے دشمن ہیں۔درایں اثناء شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائیٹ “ٹیوٹر” پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسلام کا ایسے وحشیانہ افعال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے دہشت گردی کے خلاف جنگ مزید موثربنانے کی ضرورت پر زور دیا۔قبل ازیں سعودی عرب کے وزیرخارجہ عادل الجبیر نے پیرس حملوں کو وحشیانہ بربریت قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پیرس حملوں میں ملوث عناصر کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔خیال رہے کہ جمعہ کو پیرس میں ہونے والی دہشت گردی میں کم سے کم 127 افراد ہلاک اور 300 زخمی ہو گئے تھے۔
اسلام آباد: پاکستان نے خود ساختہ دولت اسلامیہ (داعش) کی ملک میں موجودگی کے امکانات مسترد کر دیے۔
سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے اتوار کو ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان میں کسی کو داعش کے ساتھ روابط قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ چوہدری نے کہا کہ پاکستان داعش سمیت کسی بھی انتہا پسند تنظیم سے لاحق تمام خطرات سے نمنٹے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ ’پاکستان اپنی عوام کی مکمل حمایت کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت رہا ہے‘۔ دوسری جانب، سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی اور شدت پسندی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور وہ پیر س سانحہ پر فرانس کی حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔ دفتر خارجہ کے زیر اہتمام ایک تقریب سے خطاب میں صادق نے کہا کہ ایک دہائی سے زائد خود دہشت گردی کا نشانہ رہنے والا پاکستان دکھ اور تکلیف کی گھڑی میں فرانسیسی عوام کے ساتھ ہے۔جدید انسانی تہذیب کیلئےدہشت گردی کو ایک مشترکہ چیلنج قرار دیتے ہوئے صادق نے کہا کہ اس طرح کے حملے کوئی مذہبی یا اخلاقی جواز نہیں رکھتے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے مشترکہ عالمی کوششوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے غیر معمولی سٹریٹیجک اقدامات کے ذریعے جرات مندی سے اس لعنت کا مقابلہ کیا۔صادق نے بتایا کہ پاکستان اس لڑائی میں عالمی برادری کی مدد کیلئے تیار ہے۔
صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز نے صحافیوں کے خلاف بغیر مواخذے کے جرائم کرنے والوں کے خلاف عالمی دن کے موقعے پر پیرس کی 12 شاہراہوں کو ایسے صحافیوں کے نام منسوب کیا ہے جو قتل، تشدد یا گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں۔
جن شاہراہوں کا نام تبدیل کیا گیا ہے ان پر ان ممالک کے سفارت خانے واقع ہیں جہاں متاثرہ صحافیوں کو ناکردہ جرائم کی سزائیں دی گئیں۔نظیم نے پیرس میں پاکستانی سفارت خانہ جس سڑک پر واقع ہے اسے صحافی سلیم شہزاد کے نام سے موسوم کیا گیا ہےرپورٹرز ودآؤٹ بورڈرز کے مطابق اس عمل کا مقصد ان ممالک کی ناکامی کو دنیا کے سامنے لانا ہے جنھوں نے صحافیوں کے خلاف ہونے والے جرائم پر کوئی کارروائی نہیں کی، اور انھیں یاددہانی کروانا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کریں۔ رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز ان 12 شاہراہوں کو صحافیوں کے خلاف ہونے والے تشدد کو نمایاں کرنے کے لیے علامت کے طور پر استعمال کر رہی ہے کیونکہ تنظیم کے خیال میں صحافیوں کے خلاف جرائم کرنے والے افراد نامناسب سرکاری تحقیقات اور حکومت کی سرد مہری کی وجہ اکثر اوقات سزا سے بچ جاتے ہیں۔تنظیم کے مطابق صحافیوں کے خلاف ہونے والے 90 فیصد سے زائد جرائم کے مقدمات کبھی بھی حل نہیں ہوتے۔صحافیوں کی عالمی تنظیم نے لوگوں سے درخواست کی ہے کہ صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کی مہم کی حمایت اس ویب سائٹ http://fightimpunity.orgwebsite کو وزٹ کریں۔تنظیم کے مطابق اس ویب سائٹ پر آنے سے لوگوں کو لنبان کے صحافی صامر کثیر، فرانس کے گے آندرے کیفر اور میکسیکو کی ماریہ ایشٹر کے خلاف بلا سزا جرائم کی تفصیلات مل جائیں گی۔رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز کی سیکریٹری جنرل کرسٹوف ڈیلوئر کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے خلاف جرائم کر کے بچ جانے والوں کے مقدمات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ چند حکومتوں نے جان بوجھ کر ان مقدمات میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔تنظیم کے مطابق گذشتہ دس سالوں کے دوران تقریباً 800 صحافیوں کو ان کے کام کے دوران ہلاک کیا گیا جبکہ رواں برس کے آغاز سے اب تک 48 صحافیوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔
پشاور، اسلام آباد: پاک-افغان سرحد پر شدت پسندوں کے حملے میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کے 7 اہلکار ہلاک ہو گئے۔
ڈان نیوز نے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے حوالے سے بتایا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں پاک-افغان سرحد کے قریب انگور اڈہ کے مقام پر واقع ایک ایف سی چیک پوسٹ پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں 7 اہلکاروں کی ہلاکت ہوئی.
تاہم اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ چیک پوسٹ پر کتنے اہلکار تعینات تھے.واقعے کے بعد سیکیورٹی اداروں نے بارڈر پر سیکیورٹی سخت کر دی جبکہ سرحد پر ہر قسم کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کر دی گئی۔یاد رہے کہ 3 ماہ قبل جولائی میں بھی سرحد پار سے پاکستانی چیک پوسٹ پر فائرنگ کی گئی تھی جس سے 2 اہلکار زخمی ہوئے تھے ، جبکہ پاکستانی کی جانب سے جوابی فائرنگ سے ایک افغان سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوا تھا جس کے بعد کابل میں پاکستانی سفارتکار کو طلب کرکے افغان حکام نے احتجاج ریکارڈ کروایا تھا.
خیال رہے کہ جنوبی وزیر ستان میں پاک فوج کی جانب سے 2009 میں آپریشن راہ نجات کے ذریعے عسکریت پسندی کا خاتمہ کیا گیا تھا، اسی آپریشن کے بعد فوج کے مرکز جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) پر حملہ کیا گیا تھا، تاہم جوابی کارروائی میں تمام دہشت گرد مارے گئے تھے۔بعد ازاں جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں فوج نے آپریشن ضرب عضب شروع کیا جبکہ اکتوبر میں خیبر ایجنسی میں آپریشن خیبر-ون اور مارچ 2015 میں آپریشن خیبر-ٹو کا آغاز کیا گیا، فوج کی ان کارروائیوں سے شدت پسند سرحد کی دوسری جانب افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں میں چلے گئے.اس سے قبل بھی افغانستان سے پاکستان میں شدت پسندوں کی جانب سے کارروائیوں کی کوششیں کی جاتی رہیں،تاہم پاکستانی فورسز نے انھیں ناکام بنا دیا.واضح رہے کہ ان خبروں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں کیونکہ مذکورہ علاقوں میں میڈیا کو رسائی حاصل نہیں ہے، اس لیے ذرائع ابلاغ کو سرکاری اطلاعات پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے.
کوئٹہ: بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکے میں دو بچوں سمیت دس افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے۔
دھماکا منگل کی رات سریاب روڈ پر دکانی بابا چوک کے قریب ٹرمینل پر کھڑی ایک بس میں ہوا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق، کوئٹہ سے کراچی جانے والی بس میں 40 مسافر سوار تھے، ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔دھماکے کے بعد شہر کا حساس سمجھے جانے والے علاقے سریاب روڈ پر ٹریفک معطل ہو گیا جبکہ امدادی کارروائیں جاری ہیں۔ دھماکے کی شدت سے اطراف میں عمارتوں کی کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔
سعودی عرب کے میڈیا کے مطابق ملک کے مشرقی علاقے میں ایک مجلس کے شرکا پر فائرنگ سے کم سے کم پانچ افراد شہید اور چار زخمی ہو گئے ہیں۔
العریبیہ ٹی وی کے مطابق فائرنگ کرنے والا ایک حملہ آور جس کے بارے میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس کا تعلق شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ سے ہے بھی مارا گیا۔اطلاعات کے مطابق دو دیگر حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا گیا۔دوسری جانب شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔سعودی عرب کے ایک نیوز چینل کے مطابق یہ واقعہ جمعے کو مشرقی علاقے میں پیش آیا۔چینل کے مطابق فائرنگ میں چار افراد زخمی بھی ہوئے۔ایک عینی شاید نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ’ایک مسلح شخص نے مجلس کے شرکا پر فائرنگ کی۔‘سعودی عرب کے مشرق میں جمعے ہی کو شعیہ مسلمانوں کے خلاف دیگر مقامات پر کم شدت حملوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔واضح رہے کہ سعودی عرب میں شعیہ مسلمانوں کو تیزی سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے رواں برس مئی میں سعودی عرب کے شہر دمام میں شعیہ مسلمانوں کی ایک مسجد کو نشانہ بنایا تھا۔اس واقعہ سے ایک ہفتہ قبل سعودی عرب کے مشرقی صوبے قطیف میں شیعہ مسلمانوں کی مسجد پر ایک خودکش حملے میں 20 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔سعودی عرب کا مشرقی صوبہ قطیف تیل کی دولت سے مالا مال ہے اور اس کی زیادہ تر آبادی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔
ایک ہفتہ پیشتر شام میں ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک سرکردہ عہدیدار جنرل علی ہمدانی کے قتل کے بعد ہلاکت کی متضاد تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ ایران کے ذرائع ابلاغ نے جنرل ہمدانی کی شام کے شہر حلب میں باغیوں کے ہاتھوں ہلاکت کو غیرمعمولی کوریج دی ہے اور ہلاکت کے پس منظر اور کیفیت کے بارے میں بھی مختلف واقعات بیان کیے جا رہے ہیں۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق جنرل ھمدانی کے قتل کے بارے میں ایک روایت ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے چیئرمین علی شمخانی بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسٹر ہمدانی کو شمالی حلب میں ایک انٹیلی جنس کارروائی کے دوران اس وقت ہلاک کیا گیا جب وہ یک گاڑی میں اپنے تین دیگر ساتھیوں کے ہمراہ چھپے ہوئے تھے۔جنرل ہمدانی کے قتل سے متعلق ایک دوسری روایت جو زیادہ مقبول ہو رہی ہے وہ پاسداران انقلاب کی جانب سے جاری کردہ بیان ہے۔ پاسداران انقلاب کے بیان میں کہا گیا ہے کہ میجر جرنل حسین ھمدانی حلب کے نواحلی علاقے میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامی “داعش” کے ساتھ لڑائی میں 8 اکتوبر کی رات کو ہلاک ہوئے۔ یوں پاسدارن انقلاب کے بیان اور سپریم سیکیورٹی کونسل کے سربراہ کے بیانات میں جنرل ھمدانی کی ہلاکت کی الگ الگ کیفیات بیان کی گئی ہیں۔علی شمحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن لوگوں نے حسن ہمدانی کو قتل کیا ہے وہ اچھی طرح ان سے واقف نہیں تھے، جب کہ پاسداران انقلاب کے بیان کے مطابق داعش کو علم تھا کہ حلب میں وہ جس کے خلاف لڑ رہے ہیں وہ ایران کے ایک سینیر عہدیدار حسین علی ہمدانی ہیں۔
ٹیکسٹ پیغام تنازع کا موجب
جنرل ہمدانی کی ہلاکت کے فوری بعد ایران کے ذرائع ابلاغ میں سب سے پہلے جو اطلاعات سامنے آئیں ان میں بتایا گیا کہ حسین علی ہمدانی شام میں ایک حادثے میں جاں بحق ہوئے ہیں۔ تنازع اس وقت پیدا ہوا جب پاسداران انقلاب کے عہدیداروں اور پاسیج فورس کے اہلکاروں نے اپنے موبائل پیغامات میں ایک دوسرے کو یہ بتانا شروع کیا کہ حسین ھمدانی حادثےمیں نہیں بلکہ شامی اپوزیشن کے حملے میں ہلاک ہوئے ہیں۔اس کے ساتھ ہی پاسداران انقلاب کے بعض ارکان کی طرف سے موبائل پر یہ پیغام بھی جاری کیا گیا کہ حسین ھمدانی حلب میں اس وقت ہلاک ہوئے جب ان کی جیپ ایک ٹرک کو اور ٹیک کرتے ہوئے بے قابو ہو کر الٹ گئی تھی۔ حسین ھمدانی حادثےمیں شدید زخمی ہوئے اور اسپتال لے جاتے ہوئے دم توڑ گئے تھے۔ یوں ٹیکسٹ پیغامات میں بھی جنرل ہمدانی کی ہلاکت کے بارے میں متضاد دعوے کیے جاتے رہے۔ ٹیکسٹ پیغام میں یہاں تک بتایا گیا تھا کہ جنرل ھمدانی جنوب مشرقی حلب سے حماۃ شہر کی جانب جا رہے تھے کہ خناصر اور اثریا قصبوں کے درمیان ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا۔
ایران میں سماجی کارکنوں نے سوشل میڈیا پر پاسداران انقلاب کے ارکان اور باسیج فورسز کے عہدیداروں کے بیانات کے برعکس جنرل ہمدانی کی ہلاکت کی الگ ہی کیفیت بیان کی۔ سماجی کارکنوں نے لکھا کہ سنہ 2009ء کے صدارتی انتخابات کے بعد ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے تو انہیں کچلنے کے لیے جنرل ہمدانی نے بھی حصہ لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں جنرل ہمدانی کو “ہیرو” نہیں سمجھا جاتا۔ سنہ 2009ء میں جنرل ہمدانی پاسداران انقلاب کے “محمد الرسول اللہ” بریگیڈ کے سربراہ تھے۔ وہ اپوزیشن کے اس حد تک خلاف تھے کہ اصلاح پسند رہ نمائوں میر حسین موسوی اور مہدی کروبی سمیت سرکردہ اپوزیشن لیڈروں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کرتے پائے گئے تھے۔
انٹیلی جنس کارروائی میں ہلاکت
ایران کی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ علی شمخانی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ جنرل حسین ھمدانی کو حلب میں ایک انٹیلی جنس کارروائی کے دوران ہلاک کیا گیا ہے۔ تہران میں جامع مسجد امام حسین میں ایک تقریب سے خطاب کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے علی شمخانی نے کہا کہ شام میں جنرل حسین ھمدانی کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ ان کا قتل انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ انہیں اس وقت انٹیلی جنس کارروائی میں مارا گیا جب وہ ایک کار میں اپنے تین دیگر ساتھیوں کے ہمراہ چھپے ہوئے تھے۔اس کے برعکس پاسداران انقلاب نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ حسین ھمدانی “داعش” ملیشیا کے حملے میں ہلاک ہوئے۔ فارسی نیوز ویب پورٹل” جماران” نے “محمد رسول اللہ ” بریگیڈ کے سربراہ محسن کاظمینی کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ حسین ہمدانی کو اس وقت ہلاک کیا گیا جب انہیں شام میں ایک سے دوسرے مقام پر منتقل کیا جا رہا تھا۔کاظمینی کا کہنا تھا کہ جنر حسین ھمدانی اپنے ڈرائیور کے ہمراہ جا رہے تھے کہ حلب کے قریب راستے میں دشمن کی جانب سے نصب کی گئی بارودی سرنگ پھٹنے سے جاں بحق ہوگئے۔ کاظمینی نے حسین ھمدانی کے قاتلوں کو “تکفیری” قرار دیتے ہوئے دھمکی دی کہ آئندہ ایام میں ھمدانی کے قاتلوں سے انتقام لیا جائےگا۔
ڈی جی خان : پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان (ڈی جی خان) سے قومی اسمبلی کے رکن سردار محمد امجد فاروق کھوسہ کے ڈیرے پر دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 7 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔
ڈان نیوز کے مطابق مسلم لیگ کے مقامی رہنما اختر تنگوانی اور ضمیر الحسن بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں، دونوں بلدیاتی الیکشن میں چیئرمین کے امیدوار تھے.سردار محمد امجد فاروق کھوسہ این اے 171 سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی ہیں.میڈیا رپورٹس کے مطابق رکن قومی اسمبلی اس وقت ڈیرے پر موجود نہیں تھے، ان کے اسلام آباد میں ہونے کی اطلاع ہے۔
سرکاری ٹی وی کے مطابق سردار محمد امجد فاروق کھوسہ نے دھماکے کو بزدلانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کو کسی قسم کی دھمکی نہیں ملی تھی.ڈان نیوز کے مطابق رکن قومی اسمبلی کا ڈیرہ تونسہ شریف کے علاقے میں تھا، جہاں دھماکے کے وقت 40 کے قریب افراد موجود تھے۔دھماکے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور ریسکیو اداروں کے امدادی کارکنوں کی بڑی تعداد ڈیرے پر پہنچی۔پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے کر تفتیش کا آغاز کردیا جبکہ دھماکے کے نتیجے میں ہلاک شدگان اور زخمی ہونے والے افراد کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔
بم ڈسپوزل اسکواڈ نے بھی متاثرہ مقام پر پہنچ کر جانچ پڑتال شروع کی تا کہ کسی اور دھماکے سے محفوظ رہا جاسکے۔ڈسٹرکٹ پولیس افیسر (ڈی پی او) ڈیرہ غازی خان مبشر میکن کا کہنا تھا کہ دھماکے کی آواز 2 کلومیٹر دور تک سنی گئی.
وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے دھماکے میں جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ حکام سے اس کی رپورٹ طلب کرلی۔پنجاب کے گورنر رفیق رجوانہ نے بھی دھماکے کی شدید مذمت کی۔سردار محمد امجد فاروق کھوسہ 2013 کے عام انتخابات میں ڈیرہ غازی خان سے قومی اسمبلی کےرکن منتخب ہوئے، 2008 کے عام انتخابات میں سردار کھوسہ نے پنجاب اسمبلی کے حلقہ 242 سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیابی حاصل کی تھی۔
سردار امجد فاروق، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ناراض رہنما سردار ذوالفقار کھوسہ کے کزن ہیں.جنوبی پنجاب کے سینئر سیاست دان سردار ذوالفقار کھوسہ حکمران جماعت سے نالاں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ‘ون مین شو’ پر یقین رکھنے والے شریف برادران پارٹی کارکنوں کو عزت نہیں دیتے۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے شریف برادران کی مخالف مہم بھی شروع کر رکھی ہے۔
لکھنؤ میں كاشي رام مهانروا دن پر منعقد ایک پروگرام میں بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے دادری معاملے پر ایس پی اور بی جے پی پر سخت حملہ كيادادري میں گوشت کی افواہ پر ہوئی قتل پر مایاوتی نے کہا کہ سماج کو بانٹنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنائے جا رہے ہیں.انہوں نے واضح کیا کہ ان تمام ہتھکنڈوں میں کن پارٹیوں کا ہاتھ ہے اور انتخابات میں کون سی پارٹیاں اس کا فائدہ لینا چاہتی ہیں. مایاوتی نے کہا کہ یوپی میں صرف اقتدار حاصل کرنے کے لئے بی جے پی اور ایس پی دونوں ہی سازش کر رہے ہیں. یہ دونوں ہی حکومتیں دلت اور غریب مخالف ہیں.مایاوتی نے کہا کہ قبائلی اور پسماندہ بی جے پی کے جھانسے میں نہ آئیں. انہوں نے ایس پی کو آڑے ہاتھوں لیتے کہا کہ دادری سانحہ میں معاوضے پر ایس پی حکومت نے تعصب کیا. انہوں نے یہ بھی کہا کہ بی ایس پی یادوں کے خلاف نہیں ہے، یادو سماج کی بھی برابر مدد کرتی ہے.
مشرقی دیالا انتظامی یونٹ کے زیر انتظام شیعہ آبادی کے علاقےالخالص میں ایک تجارتی شارع پر کار بمب کے دھماکے میں کم از کم بتیس (32) افراد شہید ہوئے۔ اور اٹھاون (58) زخمی ہوئے۔
اس سال جولائی میں دیالا کی ایک تجارتی کچھا کچھ بھری مارکیٹ میں داعش کے خودکش حملے میں اس دہائی کی بدترین اور سب سے زیادہ ایک سو پندرہ۔ شہادتیں ہوئی تھیں۔ جن میں بڑی تعداد خواتیں اور بچوں کی بھی تھی۔
گذشتہ دنوںشیعت کی آبادی والے شہر دیالا کے کئی حصون پر داعش کا کنٹرول رہا۔ اور داعش نے اسے بری طرح تباہ کیا۔