کیوبا نے امریکہ کی جانب سے اس کا نام ’دہشت گردی کے معاونین‘ کی فہرست سے نکالنے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کا نام اس امریکی فہرست میں ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔
امریکہ کی جانب سے یہ قدم ایسے وقت اٹھایا جا رہا ہے جب اس کے کیوبا سے تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔امریکی صدر اوباما نے کیوبا اور امریکہ کے درمیان تعلقات بہتری کا اعلان پچھلے سال دسمبر میں کیا تھا تاہم کیوبا کے خلاف تجارتی پابندیاں برقرار ہیں جو صرف امریکی کانگریس ہی اٹھا سکتی ہے۔امریکہ اور کیوبا کے درمیان سفارت خانے کھولنے کے لیے ہونے والے مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ کیوبا کا نام اس امریکی فہرست میں ہونا تھا جس میں شام، ایران اور سوڈان کے نام بھی شامل ہیں۔امریکہ سے روابط کے لیے ذمہ دار کیوبن سفارت کار جوزفینا وڈال نے منگل کی شب ایک بیان میں کہا کہ ’کیوبا کی حکومت امریکی صدر کی جانب سے کیوبا کو اس فہرست سے خارج کرنے کے منصفانہ فیصلے کو سمجھتی ہے، جس میں اس کا نام شامل ہی نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’ہمارا ملک خود دہشت گردی کی کارروائیوں کا نشانہ بنتا رہا ہے جس میں 3478 افراد کی جانیں گئیں جبکہ 2099 معذور ہو گئے۔کیوبا کے دارالحکومت ہوانا میں عام شہریوں نے بھی امریکی فیصلے پر پسندیدگی ظاہر کی۔ ایک شہری ارلنڈا گیرونسیلے نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا: ’ہم دہشت گرد نہیں بلکہ ان کا الٹ ہیں۔ ہم تو امن و سکون کے حامی ہیں۔
ایک اور شہری سارا پینو نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا: ’وقت آ گیا ہے کہ اوباما اس بات کو تسلیم کر لیں کہ کیوبا وہ نہیں ہے جس کا پرچار وہ دنیا بھر میں کرتے رہے ہیں۔ یہ امریکہ اور کیوبا کے تعلقات کی بحالی کا وقت ہے۔اس سے قبل وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ امریکی صدر براک اوباما کیوبا کا نام دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والے ممالک کی امریکی فہرست سے حذف کر دیں گے۔صدر اوباما نے امریکی کانگریس کو ایک پیغام میں کہا ہے کہ کیوبا کی حکومت نے پچھلے چھ ماہ میں عالمی دہشت گردی کی کسی قسم کی مدد نہیں کی ہے بلکہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ عالمی دہشت گردی کے خلاف مدد کرے گی۔وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری جوش ارنسٹ نے کہا کہ امریکہ کو اب بھی کیوبا کی پالیسیوں اور اقدامات سے کچھ اختلافات ہیں لیکن ان کا تعلق ’دہشت گردی‘ سے نہیں ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کیوبا کا نام ہٹ جانے کے بعد ایران، سوڈان اور شام کا نام اس فہرست میں شامل رہے گا۔تاہم ربپلکن پارٹی کے لیے سینیٹ کے رکن اور 2016 کے صدارتی انتخاب کے لیے جماعت کی جانب سے نامزدگی حاصل کرنے کے خواہشمند مارکو روبیو نے امریکی صدر کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ کیوبا بدستور دہشت گردی کے معاونین میں شامل ہے۔کیوبن نژاد امریکی سینیٹر نے پیر کو کہا کہ ’وہ امریکی قانون سے بھاگنے والوں کو پناہ دیتے ہیں جن میں وہ شخص بھی شامل ہے جس نے نیو جرسی میں 30 برس قبل ایک پولیس اہلکار کو قتل کیا تھا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس کے علاوہ یہ وہی ملک ہے جو شمالی کوریا کو اقوامِ متحدہ کی جانب سے ہتھیاروں کے حصول پر عائد پابندیوں سے بچنے میں مدد دے رہا ہے۔کیوبا کا نام امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے اس فہرست میں 1982 میں شامل کیا گیا تھا۔ اس وقت امریکہ کا کہنا تھا کہ کیوبا کی حکومت مسلح انقلاب کے لیے ان تنظیموں کی مدد کر رہا ہے جو دہشت گردی کا سہارا لیتی ہیں۔امریکہ کی 2013 کی دہشت گردی پر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کیوبا سپین کے باسک علیحدگی پسند گروہ ایٹا کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے۔ تاہم کیوبا ان الزامات کی تردید کرتا آ رہا ہے۔1959 انقلاب کے بعد امریکہ اور کیوبا کے تعلقات میں اہم موڑ1960: امریکہ نے سفارتی تعلقات ختم کر دیے اور تجارتی پابندیاں عائد کردیں1961: امریکہ نے بے آف پگز پر قبضے کی حمایت کی جو ناکام رہی۔ فیدیل کاسٹرو نے کیوبا کو کمیونسٹ ملک قرار دیا اور اس کا جھکاؤ سوویت یونین کی جانب شروع ہوا1962: امریکہ کی جانب سے حملے کے ڈر سے کاسٹرو نے سوویت یونین کو کیوبا میں جوہری میزائل نصب کرنے کی اجازت دی۔ اس کی وجہ سے دو عالمی طاقتیں ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچ گئیں1980: کاسٹرو کی جانب سے پابندی اٹھائے جانے پر سوا لاکھ کیوبنز، جن میں زیادہ تر سزائے یافتہ افراد تھے، کیوبا سے بھاگ کر امریکہ پہنچے1993: سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ نے کیوبا پر تجارتی پابندیاں مزید سخت کر دیں1999: مہاجرین کی کشتی میں سوار ایک بچے کو فلوریڈا میں اس کی ماں کے حوالے کیا گیا جبکہ اس بچے کے باپ کی، جو کیوبا میں رہائش پذیر تھا، خواہش تھی کہ بچہ اس کے حوالے کیا جائے۔ عدالتی فیصلے کے بعد امریکہ نے یہ بچہ اس کے باپ کے حوالے کر دیا۔2002: امریکی نائب سیکریٹری جان بولٹن نے کیوبا کا نام ’ایکسس آف ایول‘ میں شامل کیا2014: صدر اوباما نے کیوبا کے ساتھ سفارتی اور معاشی تعلقات کو معمول پر لانے کا اعلان کیا
ایک اور شہری سارا پینو نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا: ’وقت آ گیا ہے کہ اوباما اس بات کو تسلیم کر لیں کہ کیوبا وہ نہیں ہے جس کا پرچار وہ دنیا بھر میں کرتے رہے ہیں۔ یہ امریکہ اور کیوبا کے تعلقات کی بحالی کا وقت ہے۔اس سے قبل وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ امریکی صدر براک اوباما کیوبا کا نام دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والے ممالک کی امریکی فہرست سے حذف کر دیں گے۔صدر اوباما نے امریکی کانگریس کو ایک پیغام میں کہا ہے کہ کیوبا کی حکومت نے پچھلے چھ ماہ میں عالمی دہشت گردی کی کسی قسم کی مدد نہیں کی ہے بلکہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ عالمی دہشت گردی کے خلاف مدد کرے گی۔وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری جوش ارنسٹ نے کہا کہ امریکہ کو اب بھی کیوبا کی پالیسیوں اور اقدامات سے کچھ اختلافات ہیں لیکن ان کا تعلق ’دہشت گردی‘ سے نہیں ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کیوبا کا نام ہٹ جانے کے بعد ایران، سوڈان اور شام کا نام اس فہرست میں شامل رہے گا۔تاہم ربپلکن پارٹی کے لیے سینیٹ کے رکن اور 2016 کے صدارتی انتخاب کے لیے جماعت کی جانب سے نامزدگی حاصل کرنے کے خواہشمند مارکو روبیو نے امریکی صدر کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ کیوبا بدستور دہشت گردی کے معاونین میں شامل ہے۔کیوبن نژاد امریکی سینیٹر نے پیر کو کہا کہ ’وہ امریکی قانون سے بھاگنے والوں کو پناہ دیتے ہیں جن میں وہ شخص بھی شامل ہے جس نے نیو جرسی میں 30 برس قبل ایک پولیس اہلکار کو قتل کیا تھا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس کے علاوہ یہ وہی ملک ہے جو شمالی کوریا کو اقوامِ متحدہ کی جانب سے ہتھیاروں کے حصول پر عائد پابندیوں سے بچنے میں مدد دے رہا ہے۔کیوبا کا نام امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے اس فہرست میں 1982 میں شامل کیا گیا تھا۔ اس وقت امریکہ کا کہنا تھا کہ کیوبا کی حکومت مسلح انقلاب کے لیے ان تنظیموں کی مدد کر رہا ہے جو دہشت گردی کا سہارا لیتی ہیں۔امریکہ کی 2013 کی دہشت گردی پر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کیوبا سپین کے باسک علیحدگی پسند گروہ ایٹا کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے۔ تاہم کیوبا ان الزامات کی تردید کرتا آ رہا ہے۔1959 انقلاب کے بعد امریکہ اور کیوبا کے تعلقات میں اہم موڑ1960: امریکہ نے سفارتی تعلقات ختم کر دیے اور تجارتی پابندیاں عائد کردیں1961: امریکہ نے بے آف پگز پر قبضے کی حمایت کی جو ناکام رہی۔ فیدیل کاسٹرو نے کیوبا کو کمیونسٹ ملک قرار دیا اور اس کا جھکاؤ سوویت یونین کی جانب شروع ہوا1962: امریکہ کی جانب سے حملے کے ڈر سے کاسٹرو نے سوویت یونین کو کیوبا میں جوہری میزائل نصب کرنے کی اجازت دی۔ اس کی وجہ سے دو عالمی طاقتیں ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچ گئیں1980: کاسٹرو کی جانب سے پابندی اٹھائے جانے پر سوا لاکھ کیوبنز، جن میں زیادہ تر سزائے یافتہ افراد تھے، کیوبا سے بھاگ کر امریکہ پہنچے1993: سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ نے کیوبا پر تجارتی پابندیاں مزید سخت کر دیں1999: مہاجرین کی کشتی میں سوار ایک بچے کو فلوریڈا میں اس کی ماں کے حوالے کیا گیا جبکہ اس بچے کے باپ کی، جو کیوبا میں رہائش پذیر تھا، خواہش تھی کہ بچہ اس کے حوالے کیا جائے۔ عدالتی فیصلے کے بعد امریکہ نے یہ بچہ اس کے باپ کے حوالے کر دیا۔2002: امریکی نائب سیکریٹری جان بولٹن نے کیوبا کا نام ’ایکسس آف ایول‘ میں شامل کیا2014: صدر اوباما نے کیوبا کے ساتھ سفارتی اور معاشی تعلقات کو معمول پر لانے کا اعلان کیا