ترکی میں حجاب پہننے والی پہلی خاتون وزیر

September 04, 2015
04Sep15_VOA ترکی
VOA

لندن—
سیکولر ریاست کے طور پر ترکی کی تاریخ میں پہلی بار ایک حجاب پہننے والی خاتون عائشین خورد جان کو وزارت کا قلمدان سونپا گیا ہے، جو وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو کی عبوری کابینہ میں خاندانی امور اور سماجی پالیسیوں کی وزیر مقرر کی گئی ہیں۔ترکی کی جمہوری حکومت میں ایک حجاب پہننے والی خاتون وزیر کی تقرری کو سیکولر سیاسی روایات کے حوالے سے اہم سمجھا جا رہا ہے۔ جہاں حال ہی میں ارکان پارلیمنٹ اور سرکاری ملازمین پر سے حجاب پہننے پر عائد دہائیوں کی طویل پابندی اٹھا لی گئی ہے۔

52سالہ ماہر تعلیم اور بیورو کریٹ عائشین خوردجان مسلم اکثریتی ملک کی عبوری حکومت کی پہلی خاتون وزیر اور ترکی کی تاریخ کی پہلی ہیڈ اسکارف پہننے والی خاتون وزیر ہیں۔وہ اس سال یکم نومبر کو قبل از وقت ہونے والے عام انتخابات تک خاندانی اور سماجی پالیسی کی وزیر کے طور پر خدمات انجام دیں گی۔سات جون کے عام انتخابات میں کسی بھی واحد جماعت کی طرف سے ضروری اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد معلق پارلیمان کی تشکیل سے روکنے کے لیے ترک صدر رجب طیب اردوغان نے 28 اگست کو نگراں حکومت بنانے کی منظوری دی تھی، جس کے بعد وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو کی قیادت میں جمعے کو عبوری کابینہ کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس حکومت کا بنیادی کام آئندہ انتخابات تک حکومتی امور چلانا ہے۔

ترکی کی پارلیمنٹ ‘مجلس ترکیہ بیوک ملت مجلسی’ کہلاتی ہے جس کے
اراکین کی تعداد550 ہے اور سادہ اکثریت سے حکومت بنانے کے لیے 226 نشستیں جیتنا ضروری ہیں۔ترک کابینہ کی وزیر عائشین یوتھ اور تعلیم کی ایک فاؤنڈیش نور غیف کے بورڈز آف ڈائریکٹر کی ایک رکن ہیں، جس کے سربراہ موجودہ صدر رجب طیب اردوغان کے صاحبزادے بلال اردوغان ہیں۔انھیں صدر رجب طیب اردوغان کی طرف سے تین بچوں کی منصوبہ بندی کے پروگرام کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اس منصوبے کے مطابق ترک خاندان کو کم از کم تین بچوں کا گھرانہ ہونے پر زور دیا گیا ہے۔

ترکی میں رہنے والی مسلمان عورتوں کے لباس کے ساتھ حجاب ایک واجب کوڈ ہے، لیکن ترکی میں 1980ء کی فوجی بغاوت کے بعد یونیورسٹیوں، سرکاری عمارتوں، دفاتر اور اسکولوں میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔2008ء میں ترک صدر اردوغان کی سیاسی جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے یونیورسٹیوں میں حجاب پر پابندی میں نرمی کے لیے آئینی تبدیلی منظور کی تھی اور 2012ء میں ترکی کے اسلامی اسکولوں میں حجاب پہننے پر طویل پابندی اٹھا لی گئی تھی۔ترکی میں سیکولر اشرافیہ جن میں فوجی جرنیل، ججز اور یونیورسٹی کے عہدے دار شامل ہیں حجاب کی پابندی میں نرمی کی مخالفت کرتے ہیں۔

Leave a comment